بہاولپور: تحقیقاتی کمیٹی نے 2 ماہ قبل چولستان میں 3 کم سن لڑکیوں کے لاپتہ ہونے اور مبینہ طور پر ریپ کے بعد قتل کیے جانے کے معاملے کا جائزہ لینے کے لیے چولستان کا دورہ کیا جس کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ میں ریپ کے الزامات کو مسترد کردیا گیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مذکورہ واقعے کی تحقیقات کے لیے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے چیئرمین اور سابق وفاقی وزیر رحمٰن ملک نے نگراں وزیر قانون طاہر حیدر رضوی کی سربراہی میں 4 رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی۔

کمیٹی کے دیگر اراکین میں ایڈیشنل چیف سیکریٹری پنجاب (اے سی ایس) نسیم نواز، اسسٹنٹ انسپکٹر جنرل (اے آئی جی) کنور شاہ رخ اور کمشنر بہالپور نئیر عباس شامل تھے۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد: ایف 9 پارک میں خاتون کا ’ریپ‘، 5 ملزمان گرفتار

چولستان کے علاقے ٹوبہ شرعی والہ میں جس مقام پر ان لڑکیوں کی لاشیں ریت سے برآمد ہوئیں تھیں وہاں تحقیقاتی کمیٹی کے دورے کے دوران ملتان کے ریجنل پولیس افسر (آر پی او) نے بھی تحقیقات میں معاونت فراہم کی۔

اس سے قبل پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ ہلاک ہونے والی لڑکیاں صحرا میں ریت کے طوفان کے دوران راستہ بھٹک گئیں تھیں، لیکن سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں رحمٰن ملک نے پولیس حکام پر حقائق چھپانے کا الزام عائد کیا جبکہ اس ضمن میں وومن میڈیکل افسر کی جمع کروائی گئی رپورٹ میں لڑکیوں کے ریپ کے بعد قتل کا تذکرہ کیا گیا تھا۔

جس کے بعد قائمہ کمیٹی نے چار اراکین پر مشتمل تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دیتے ہوئے ایک ہفتے کے دوران رپورٹ جمع کروانے کی ہدایات کی تھی۔

یہ بھی دیکھیں: کراچی کے فارم ہاؤس میں لڑکی کا ریپ

ریجنل پولیس افسر (آر پی او) ریحان گیلانی کے مطابق کمیٹی کے ارکان نے ٹوبہ شرعی والا کے دورے کے دوران جائے وقوع کا جائزہ لیا اور شواہد اکھٹے کیے۔

انہوں نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ قلعہ عباس کی پولیس نے نامعلوم ملزمان کے خلاف مبینہ ریپ اور قتل کے الزام میں مقدمہ درج کرلیا تھا لیکن یہ مقدمہ واقعے کے 53 دن بعد درج کیا گیا تھا۔

اس سلسلے میں جاری سرکاری بیان میں بتایا گیا کہ کمیٹی کے ارکان متاثرہ خاندان کی رہائش گاہ پر بھی گئے اور اہلِ خانہ سے ملاقات کی۔

مزید پڑھیں: کراچی: گھر سے ناراض لڑکی کا فارم ہاؤس میں ریپ، 3 افراد گرفتار

اس حوالے سے مقتول لڑکیوں کے اہلِ خانہ کا مزید کہنا تھا کہ لڑکیاں صحرا میں آنے والے طوفان کے باعث راستہ بھٹک گئیں تھیں اور بھوک اور پیاس کی وجہ سے ہلاک ہوئیں، جس کے بعد کمیٹی نے ڈاکٹر سے بھی شواہد حاصل کیے۔

بعدازاں کمیٹی کے سربراہ نگراں وزیر قانون نے بیان دیا کہ مذکورہ لڑکیوں سے ریپ کے شواہد نہیں مل سکے جبکہ لیڈی ڈاکٹر نے بھی ریپ کی تصدیق نہیں کی تاہم ان کا کہنا تھا کہ حادثے کی مزید تحقیقات کی جائیں گی۔

بہاولنگر کی لڑکیوں کا جنسی استحصال

گزشتہ ماہ 21 جولائی کو سینیٹ کمیٹی کے اجلاس کے دوران 3 لڑکیوں کا معاملہ اٹھایا گیا تھا جو چولستان کے صحرا میں ریت کے طوفان کے دوران لاپتہ ہوگئی تھیں اور بعدازاں مردہ پائی گئیں۔

ابتدائی رپورٹ میں صحرائی طوفان کو ان کی موت کی وجہ قرار دیا گیا تھا اور بتایا گیا تھا کہ اہلِ خانہ کو 25 لاکھ معاوضہ ادا کیا گیا۔

تاہم کمیٹی نے اس معاملے کی مزید تحقیقات کا فیصلہ کیا کیوں کہ تینوں لڑکیوں کی موت ایک ہی دن ہونے اور فوری طور پر معاوضے کی ادائیگی کے دعوے نے معاملے کو مشکوک بنا دیا تھا۔

اجلاس میں لڑکیوں کی لاشوں کا پوسٹ مارٹم کرنے والی بہاولنگر بنیادی مرکز صحت کی ڈاکٹر عذرا حکیم بھی موجود تھیں جنہوں نے کمیٹی کے سامنے بیان دیا کہ ہسپتال لائی جانے والی لڑکیوں کی عمر 6 سے 13 سال کے درمیان تھیں، پوسٹ مارٹم کے دوران لاشوں پر تشدد کے نشانات پائے گئے جبکہ جسم کی کھال بھی جگہ جگہ سے ادھڑی ہوئی تھی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ لڑکیوں کو ریپ کا بھی نشان بنایا گیا تھا، لاشوں سے اکھٹے کیے گئے نمونے فارنزک ٹیسٹ کے لیے بھجوا دیے گئے۔

اس حوالے سے بہاولنگر پولیس کو سینیٹر رانا مقبول کی سربراہی میں قائم ذیلی کمیٹی میں ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ جمع کروانے کی بھی ہدایت کی گئی تھی۔

سینیٹر رحمٰن ملک کا کہنا تھا کہ شرمناک بات یہ ہے کہ پولیس نے معاملہ دبانے کی کوشش کی اور حکم دیا کہ تحقیقات کی جائیں کہ معاوضے کی رقم کس نے ادا کی، اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے پوسٹ مارٹم کرنے والی لیڈی ڈاکٹر کی حفاظت یقینی بنانے کے بھی احکامات دیے۔

تبصرے (0) بند ہیں