اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس کے فیصلے کو معطل کرنے سے متعلق درخواست میں اس معاملے کو زیادہ طول نہ دینے پر زور دیتے ہوئے ڈیفنس اور پراسیکیوشن کو ہدایت دی ہے کہ وہ اپنے اعتراضات جمعے تک مکمل کرلیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل 2 رکنی ڈویژن بینچ نے ایون فیلڈ ریفرنس کے فیصلے کو معطل کرنے سے متعلق درخواست پر سماعت کی۔

اس دوران دونوں ججز نے ڈیفنس اور پراسیکیوشن کے وکلاء سے استفسار کیا کہ اگر دونوں میں سے کیس کو عدالت کی آزادی اور سالمیت یا منصفانہ مقدمے کی سماعت پر شکوک و شہبات ہیں تو ایسی صورت میں وہ خود کو اس معاملے سے الگ کرنے کو تیار ہیں، جس پر وکلاء کی جانب سے بینچ پر اعتماد کا اظہار کیا گیا۔

مزید پڑھیں: لاہور ہائیکورٹ: شریف فیملی کی سزاؤں کے خلاف دوبارہ فل بینچ تشکیل

خیال رہے کہ 6 جولائی کو اسلام آباد کی احتساب عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ دیتے ہوئے سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد نواز شریف کو 10 سال، ان کی صاحبزادی مریم نواز کو 7 سال جبکہ داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کو ایک سال کی سزا سنائی تھی۔

دوران سماعت قومی احتساب بیورو (نیب) کے ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل سردار مظفر عباسی نے شریف خاندان کی جانب سے دائر کی گئی درخواست پر 5 اعتراضات اٹھائے۔

انہوں نے کہا کہ سزا کے خلاف اپیل پہلے سے ہی مقرر تھی اور مجرم کم از کم 6 ماہ کی قید کاٹنے کے بعد رہائی حاصل کرسکتا ہے، اس کے علاوہ درخواست گزار نے متعلقہ حکام کو فریق بنانے کا حوالہ نہیں دیا۔

تاہم عدالت نے ان اعتراضات کو مسترد کرتے ہوئے نواز شریف کے وکیل کو درخواست سے متعلق اپنے دلائل پیش کرنے کی اجازت دی۔

وکیل دفاع نے اعتراض کیا کہ نیب نے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کی قیمت یا اس کی خریداری کے وقت نواز شریف کی آمدنی کے ذرائع کا تعین نہیں کیا۔

انہوں نے کہا کہ اس جائیداد کا تعلق سابق وزیر اعظم نواز شریف کے صاحبزادے سے تھا لیکن اگر مثال کے طور پر یہ بھی مان لیا جائے کہ ایون فیلڈ اپارٹمنٹ ان کے موکل کی ملکیت تھے تب بھی نواز شریف کے خلاف کیس اس وقت ثابت ہوتا جب نیب نواز شریف کی آمدنی کے ذرائع اور جائیداد کی خریداری کے درمیان تضاد ثابت کرسکے۔

انہوں نے اس بات کو دوہراتے ہوئے کہا کہ پاناما پیپرز کیس میں قائم مشترکہ تحقیقات ٹیم (جے آئی ٹی) کے سربراہ واجد ضیاء نے جرح کے دوران اس بات کو تسلیم کیا تھا کہ لندن فلیٹس سے متعلق نواز شریف کی ملکیت کے بارے میں براہ راست کوئی ثبوت نہیں ملے۔

اس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ نیب کے پاس اس معاملے میں ناکافی ثبوت ہیں کہ لندن اپارٹمنٹس بدعنوانی کے طریقے سے خریدے گئے۔

یہ بھی پڑھیں: ایون فیلڈ ریفرنس سزا کےخلاف درخواست کی سماعت کرنے والا بینچ ٹوٹ گیا

نیب پراسیکیوشن کے جواب پر عدالت کی جانب سے کہا گیا کہ 6 جولائی کے فیصلے کے خلاف نیب کی جانب سے کوئی اپیل دائر نہیں کی گئی اور یہ عمل شریف خاندان کو کلین چٹ دیتا ہے کہ وہ بدعنوانی یا بددیانتی میں ملوث نہیں تھے اور انہیں سزا صرف اس وجہ سے ہوئی کہ وہ ایون فیلڈ اپارٹمنٹ کے بارے میں وضاحت کرنے میں ناکام ہوگئے۔

اس پر نیب پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ مناسب ہوگا کہ اگر عدالت ڈیفنس وکلاء خواجہ حارث اور امجد پرویز کے دلائل سن لیں پھر وہ اپنے دلائل بعد میں دیں گے۔

بعدازاں عدالت نے امجد پرویز کو ہدایت کی کہ وہ 15 اگست تک اپنے دلائل مکمل کرے، ساتھ ہی نیب پراسیکیوشن کو بھی آئندہ روز دلائل دینے کی ہدایت کردی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں