پاکستان کے 22 ویں وزیر اعظم کے انتخاب کی دوڑ میں شامل پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کے سیاسی سفر پر نظر ڈالی جائے تو انہوں نے 1988 سے باقاعدہ سیاست میں قدم رکھا اور رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے۔

سیاست دان کے ساتھ ساتھ ایک مضبوط کاروباری شخصیت سمجھے جانے والے شہباز شریف 23 ستمبر 1951 کو صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں پیدا ہوئے۔

مزید پڑھیں: پاکستان کا اگلا وزیراعظم کون؟ فیصلہ آج ہوگا

ابتدا میں انہوں نے اپنے خاندان کے اتفاق گروپ کا کاروبار دیکھا اور 1985 میں لاہور ایوان صنعت و تجارت کے صدر منتخب ہوئے۔

شہباز شریف کا سیاسی سفر

1988 میں پہلی مرتبہ انتخابات میں حصہ لیا اور لاہور میں پی پی 122 کی نشست پر کامیابی حاصل کی۔

1990 میں لاہور ہی سے قومی اسمبلی کے حلقہ 96 سے انتخابات میں حصہ لیا اور قومی اسمبلی کے رکن بنے۔

1993 میں شہباز شریف نے پنجاب اسمبلی کی نشست سے کامیابی حاصل کی اور انہیں قائد حزب اختلاف کے طور پر نامزد کیا گیا۔

1997 میں پھر سے صوبائی اسمبلی کے رکن بنے اور پہلی مرتبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ بننے کا اعزاز حاصل کیا۔

1999 میں ملک میں ہونے والی فوجی بغاوت کے بعد انہیں معزول کرکے سعودی عرب جلا وطن کردیا گیا۔

2007 میں 8 برس جلا وطنی میں گزارنے کے بعد وہ واپس وطن آئے اور پھر سے سیاست میں حصہ لیا۔

2008 میں ہونے والے عام انتخابات میں پی پی 48 بھکر سے پنجاب اسمبلی کے چوتھی مرتبہ رکن بنے اور صوبے کے دوسری مرتبہ وزیر اعلیٰ کے منصب پر فائز ہوئے۔

2013 میں انہوں نے 5 ویں مرتبہ پنجاب اسمبلی کی نشست پر کامیابی حاصل کی اور مسلسل دوسری مرتبہ جبکہ مجموعی طور پر تیسری مرتبہ وزیر اعلیٰ پنجاب منتخب ہوئے۔

2018 میں ان کے سفر میں ایک نیا موڑ اس وقت سامنے آیا جب ان کے بڑے بھائی سابق وزیر اعظم نواز شریف کے نااہل ہونے کے بعد انہیں مسلم لیگ (ن) کا صدر منتخب کیا گیا۔

شہباز شریف نے اسی سال ہونے والے عام انتخابات میں کراچی سمیت قومی اسمبلی کی 4 نشستوں جبکہ صوبائی اسمبلی کی 2 نشستوں سے انتخابات میں حصہ لیا تھا، جن میں سے قومی اسمبلی کی 3 نشستوں پر ناکامی دیکھنا پڑی۔

تاہم وہ این اے 132 لاہور اور پی پی 164 اور 165 کی نشستوں پر کامیاب ہوئے تھے۔

اہم معاملات پر موقف

تین دفعہ وزیرِاعلیٰ رہنے والے، اتفاق گروپ آف کمپنیز کے حصے دار اور ملک کی کامیاب کاروباری شخصیت شہباز شریف کو ایک مضبوط اور پرعزم شخص کے طور پر جانا جاتا ہے جو ایک قابل منتظم بھی ہیں۔

انہوں نے پنجاب میں ترقیاتی کاموں کے حوالے سے قابلِ دید کامیابی حاصل کی جبکہ پنجاب کے میٹرو بس منصوبوں کو ان کی سب سے بڑی کامیابیوں میں سے قرار دیا جاتا ہے، وہ کئی علاقوں میں کروائے جانے والے تعمیراتی اور ترقیاتی کام پر فخر کرتے ہیں اور انہیں لاہور کی ترقی پر بھی بہت فخر ہے۔

ماضی قریب اور ماضی بعید میں اپنے بھائی کی مشکلات، جن کی وجہ سے شہباز شریف کو جلاوطن بھی ہونا پڑا، کے باوجود شہباز شریف نواز شریف سے وفادار رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: قومی اسمبلی: عمران خان، بلاول بھٹو، شہباز شریف سمیت دیگر اراکین نے حلف اٹھالیا

مارچ 2018 میں بلامقابلہ پارٹی صدر منتخب ہونے کے بعد مسلم لیگ (ن) کی جنرل کونسل سے خطاب کرتے ہوئے شہباز شریف کا کہنا تھا کہ 'مجھے یقین ہے کہ نواز شریف ہی وہ واحد پاکستانی سیاستدان اور رہنما ہیں، جنہیں جناح کا سیاسی وارث کہا جا سکتا ہے، نواز شریف جیسا قائد ملنا ہماری خوش قسمتی ہے'۔

نواز شریف، جن کی مشکلات کا ذمہ دار اکثر ‘ناراض اسٹیبلشمنٹ’ پر ڈالا جاتا ہے، ایسے میں وفاداری کے باوجود شہباز شریف سول ملٹری تعلقات کے معاملے پر اپنے بھائی کے سخت گیر مؤقف کے برخلاف ایک نرم رویے کے حامل نظر آتے ہیں۔

کچھ عرصہ قبل صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے صدر کا کہنا تھا کہ 'سویلین اور ملٹری حکام کو پاکستان کو لاحق خطرات سے نمٹنے کے لیے ایک ساتھ کام کرنا چاہیے'۔

شہباز شریف اپنے وزارت اعلیٰ کے دور میں خود کو وزیر اعلیٰ کہلوانے کے بجائے خادم اعلیٰ کہلوانا پسند کرتے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں