واشنگٹن: ٹرمپ انتظامیہ نے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ میں ’ایران ایکشن گروپ‘ نامی ایک نیا ذیلی ادارہ تشکیل دے دیا جو ایران کے داخلی اور خارجی ’رویہ‘ میں تبدیلی کے لیے کام کرے گا۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیکل پومپیو نے کہا ہے کہ ’ہم خطے میں اندورنی اور بیرونی سطح پر رویوں میں آنے والی تبدیلیوں کا بغور جائزہ لے رہے ہیں‘۔

یہ بھی پڑھیں: ایران امریکی جوہری معاہدہ ختم، خام تیل کی قیمت میں ریکارڈ اضافہ

انہوں نے کہا کہ ’ایران ایکشن گروپ مقاصد کے حصول میں مدد فراہم کرے گا‘۔

مائیکل پومپیو نے واضح کیا کہ ٹرمپ انتظامیہ نے ایران کے حوالے سے اوباما انتظامیہ کی پالیسی تبدیل کی ہے اور اب ایران کے لیے ’دباؤ، مزاحمت اور ایرانی عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی‘ کی مہم شروع کریں گے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ایران کے لیے امریکا کے خصوصی ترجمان برین ہوک ایران ایکشن گروپ کی سربراہی کریں گے۔

اس حوالے سے بتایا گیا کہ برین ہوک فروری 2017 سے امریکی محکمے میں ڈائریکٹر پالیسی پلاننگ فرائض انجام دیتے رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ ختم ہونے کا امکان، امریکی خارجہ پالیسی ’پاگل پن‘ قرار

دوسری جانب برین ہوک نے اپنی ٹیم کو تہران کے جوہری پروگرام، دہشت گردی اور امریکی قیدیوں کے حوالے سے رویے میں تبدیلی کے لیے توجہ مرکوز کرنے کی ہدایت کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ امریکا کی نئی حکمت عملی ’امریکا کی نیشنل سیکیورٹی، اتحادیوں کا تحفظ اور ایرانی عوام کا بہتر مستقبل ہے‘۔

ٹرمپ انتظامیہ نے اپنے اتحادی ممالک کی تجاویز اور مشوروں کو مسترد کرتے ہوئے 8 مئی کو ایران کے ساتھ عالمی معاہدہ منسوخ کردیا جو 2015 میں اس وقت کے امریکی صدر بارک اوباما نے دیگر عالمی طاقتوں بشمول برطانیہ، چین، فرانس، جرمنی، روس اور امریکا کے مابین طے پایا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ‘ایران سے جوہری معاہدہ ختم کرنے پر امریکا کو تاریخی پشیمانی ہوگی‘

رواں برس اپریل میں فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ذاتی وجوہات کو جواز بنا کر آئندہ ماہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے دستبردار ہوجائیں گے۔

فرانسیسی صدر نے مسلسل اتار چڑھاؤ اور یو ٹرن کے باعث امریکی خارجہ پالیسی کو ’پاگل پن‘ قرار دیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں