ملک ریاض ’بحریہ ٹاؤن‘ کا نام استعمال نہیں کرسکتے،سول جج کا فیصلہ برقرار

اپ ڈیٹ 19 اگست 2018
بحریہ ٹاؤن کراچی ہیڈ آفس — فوٹو، عبداللہ وحید راجپوت
بحریہ ٹاؤن کراچی ہیڈ آفس — فوٹو، عبداللہ وحید راجپوت

راولپنڈی: مقامی عدالت نے کاروباری شخصیت ملک ریاض کی جانب سے ’بحریہ ٹاؤن‘ کا نام استعمال کرنے کے حوالے سے دائر درخواست خارج کردی جس کے ساتھ ہی وہ اب اپنے ریئل اسٹیٹ بزنس میں اس نام کو مزید استعمال نہیں کر سکیں گے۔

مارچ 2015 میں بحریہ فاؤنڈیشن اور بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض کے درمیان ’بحریہ ٹاؤن‘ نام کے استعمال کے حوالے سول جج نے فیصلہ سنایا تھا جس میں ہاؤسنگ سوسائٹی کو بحریہ ٹاؤن کا نام استعمال کرنے سے روک دیا تھا۔

ملک ریاض نے یہ فیصلہ ایڈیشنل سیشن کورٹ میں چیلنج کردیا تھا، جہاں اس کا فیصلہ زیرِ التوا تھا۔

رواں ماہ کے آغاز میں سپریم کورٹ نے سیشن کورٹ کو ہدایت جاری کی تھی کہ وہ اس کیس کا فیصلہ آئندہ دو ہفتوں میں سنادے۔

مزید پڑھیں: بحریہ ٹاؤن کراچی:الاٹمنٹ غیر قانونی قرار، پلاٹس کی فروخت روکنے کا حکم

ایڈشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج حاکم خان بکھر نے 18 اگست کو بحریہ ٹاؤن کی اپیل مسترد کرتے ہوئے سول جج کے فیصلہ کو برقرار رکھا۔

جب بحریہ ٹاؤن کے سینئر حکام کرنل (ر) خلیل سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ بحریہ ٹاؤن نہیں بلکہ ملک ریاض ایک برانڈ بن گئے ہیں، تاہم اس معاملے میں قانونی راہ اختیار کی جائے گی۔

ملک ریاض سے تعلق رکھنے والی ’حسین گلوبل‘ نامی تعمیراتی کمپنی نے 1996 میں بحریہ ٹاؤن کی تعمیر کے لیے بحریہ فاؤنڈیشن کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے۔

بحریہ فاؤنڈیشن کا قیام جنوری 1982 میں عمل میں آیا تھا جس کی کمیٹی کے سربراہ چیف آف نیول اسٹاف ہوتے ہیں، جو 8 ارکان پر مشتمل ہوتی ہے، جبکہ اس میں فاؤنڈیشن کے منیجنگ ڈائریکٹر (ایم ڈی) بھی شامل ہوتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: بحریہ ٹاؤن کراچی: سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد زمین کی قیمتوں میں واضح کمی

دونوں فریقین کے درمیان ہونے والے معاہدے میں ملک ریاض نے نیوی کے ٹرسٹ کو ’بحریہ‘ کا لفظ اپنی نجی ہاؤسنگ اسکیمز میں استعمال کرنے پر 10 فیصد شیئر کی پیشکش کی تھی جبکہ دیگر رقم حسین گلوبل، ملک ریاض اور ان کے اہلِ خانہ میں تقسیم ہونا تھی۔

سال 2000 میں بحریہ فاؤنڈیشن نے ملک ریاض سے درخواست کی تھی وہ بحریہ کا لفظ استعمال نہ کریں، تاہم اسی سال ملک ریاض نے بحریہ ٹاؤن کے ساتھ ایک اور معاہدہ کرلیا تھا۔

بحریہ کا نام مستقل طور پر استعمال نہ کرنے پر رضامندی کا اظہار کرتے ہوئے ملک ریاض کے لوگوں نے درخواست کی تھی کہ انہیں آئندہ 18 ماہ کے لیے یہ نام استعمال کرنے دیا جائے۔

تاہم، 2002 میں ملک ریاض نے مقامی عدالت سے حکم امتناع لیا اور الزام عائد کیا کہ بحریہ فاؤنڈیشن انہیں معاہدہ کرنے پر زور دے رہی ہے۔

مزید پڑھیں: نیب کا بحریہ ٹاؤن کراچی پر 90ارب روپے کی زمین پر قبضے کا الزام

اس حکم امتناع کے بعد پاکستان میں ریئل اسٹیٹ کی سب سے بڑی کاروباری شخصیت نے راولپنڈی، اسلام آباد، لاہور اور کراچی میں ’بحریہ ٹاؤن‘ کے نام سے متعدد ہاؤسنگ اسکیمیں تیار کرکے فروخت کردیں۔

جج حاکم خان بھکر نے روزانہ کی بنیاد پر کیس کی سماعت کی جس میں بیرسٹر گوہر علی خان اور شیخ الیاس ہاؤسنگ سوسائٹی کی جانب سے عدالت میں پیش ہوتے رہے۔

وکلا کے مطابق بحریہ ٹاؤن حکام دباؤ میں آکر اس برانڈ کا نام چھوڑنے کے لیے تیار ہیں۔

دوسری جانب بحریہ فاؤنڈیشن کے وکیل شیخ خزر راشد نے اپنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ادارے نے ملک ریاض کو کبھی بھی بحریہ کا نام استعمال کرنے پر زور نہیں دیا، انہوں نے اپنی مرضی کے مطابق نام استعمال نہ کرنے پر رضا مندی کا اظہار کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: بحریہ ٹاون کے خلاف رپورٹ پر کارروائی کا مطالبہ

ان کامزید کہنا تھا کہ ملک ریاض نے اس معاہدے پر اپنی کمپنی کے رجسٹرار کی موجودگی میں دستخط کیے تھے، تاہم انہوں نے اب تک اپنے الزامات عدالت میں ثابت نہیں کیے ہیں۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان نیوی سے جڑے اس بحریہ کے نام کو استعمال کرنے سے مسلح فوج بدنام ہوتی ہے، لہٰذا نجی ہاؤسنگ سوسائٹی کو اس کے استعمال کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔


یہ خبر 19 اگست 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں