افغانستان سے قربانی کے جانوروں کی درآمد پر عائد پابندی کومسلسل تین روز ہوگئے ۔

مقامی مویشی بیوپاری اور طورخم بارڈر پر تعینات افغان کسٹم حکام کے درمیان مذاکرات ناکام ہوجانے کے باعث افغانستان سے قربانی کے جانوروں پر عائد پابندی کا لگا تار تیسرا دن ہے۔

افغان کسٹم حکام نے اس وقت تک پابندی ہٹانے سے انکار کردیا ہے جب تک پاکستان افغانستان میں مویشیوں کی برآمد کو عیدالاضحیٰ سے قبل اجازت نہیں دیتا۔

واضح رہے کہ پاکستان کی جانب سے مقامی منڈیوں میں قربانی کے جانوروں کی مناسب قیمتوں پر دستیابی کو یقینی بنانے کے لیے افغانستان کو مویشیوں کی برآمد پابندی عائد کردی گئی تھی، جس کے چند روز بعد ہی افغانستان نے پاکستان پر پابندی عائد کردی تھی۔

افغانستان کی جانب سے پابندی عائد کیے جانے کے بعد مقامی مارکیٹ میں بھیڑ کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے، اس حوالے سے مویشی مالکان کا دعویٰ ہے کہ ہزاروں کی تعداد میں بھیڑ اور بکریوں کو افغانستان کے بارڈر سے آنے سے روک دیا گیا ہے۔

قبل ازیں مقامی ڈیلرز طورخم بارڈر پر تعینات پاکستانی کسٹم حکام کو فی جانور 650 روپے کسٹم ٹیکس کی مد میں دینے پر آمادہ ہوجاتے تھے لیکن خضدار کے حکام نے افغانستان سے لنڈی کوتل جانور لے جانے والے ہر ٹرک سے 8 ہزار روپے لینا شروع کردیے۔

تاہم مویشی ڈیلرز نے ان اخراجات کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے بتایا کہ صوبائی حکومت نے حال ہی میں خضدار حکام پر افغانستان سے قربانی کے جانوروں سمیت درآمد شدہ تجارتی سامان پر ٹیکس پر پابندی عائد کی ہے۔

ڈیلر حاجی دادین نے ڈان کو بتایا کہ گورکو بازار ذکا خیل کے راستے بھیڑوں کی اسمگلنگ کا آغاز طورخم بارڈر پر عائد پابندی کے بعد ہوا تھا۔

ڈیلر نے بتایا کہ بازار ذکاخیل اور لنڈی کوتل کے مابین فاصلہ طورخم بارڈر سے بھی زیادہ ہے جو کہ صرف 7 کلومیٹر طویل تھا۔

انہوں نے کہا کہ افغان بارڈر پر قائم پہاڑیوں سے بازار ذکاخیل اور لںڈی کوتل لائے جانے کے دوران بھیڑ اور بکریوں کی ایک بڑی تعداد پیاس اور دم گھٹنے کے باعث مرگئی۔

ڈیلر نے بتایا کہ مقامی مارکیٹ میں افغان پابندیوں کی وجہ سے قربانی کے جانوروں کی کمی تھی جس کی وجہ سے قیمتوں میں کم از کم 3 ہزار روپے فی جانور اضافہ ہو اہے۔

انہوں نے امن کمیٹی کے رضاکاروں کی جانب سے اضافی ٹرانسپورٹ چارج اور غیرقانونی ٹیکس لیے جانے کی شکایت بھی کی۔


یہ خبر ڈان اخبار میں 19 اگست 2018 کو شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں