امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو شاید ہی کہیں اتنی اہمیت دی جاتی ہوگی یا ان کا اتنا تذکرہ کیا جاتا ہوگا جتنا بیجنگ میں کیا جاتا ہے۔

اسی تمام صورتحال پر ڈان اخبار میں شائع ایک رپورٹ میں چین اور امریکا کے درمیان جاری تجارتی جنگ کے بارے میں کچھ نکات سامنے رکھے گئے ہیں اور بتایا گیا ہے کہ ’نئی سرد جنگ‘ کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ کو ہینڈل کرنے کے حوالےسے چین بے یقینی کا شکار نظر آتا ہے۔

مزید پڑھیں: تجارتی کشیدگی: امریکا، چین کا روابط جاری رکھنے پر اتفاق

چین کے بطور عالمی طاقت عروج کو روکنے کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے وضع کی جانے والی بڑی حکمت عملی اور چینی صدر شی جن پنگ کے خلاف واشنگٹن کی بڑھتی ہوئی تجارتی جنگ کے چھپے مقاصد کے حوالے سے حکومتی دفاتر، تھنک ٹینک، جامعات اور سرکاری ذرائع ابلاغ میں ایک بحث جاری ہے۔

اس حوالے سے سابق بیوروکریٹس کے آزادانہ تحقیقاتی گروپ سینٹر فار چائنا اینڈ گلوبلائزیشن کے سینئر رکن ہی ویوین کا کہنا تھا کہ ’ ٹرمپ انتظامیہ نے یہ واضح کیا ہے کہ ٹیرف ایکشن کے پیچھے گہری وجہ چین کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات ہیں‘۔

ان جذبات کا اظہار دو درجن سے زائد سابق حکومتی حکام، بزنس ایگزیکٹو، ریاست سے منسلک تحقیق کار، سفارتکار اور ریاستی میڈیا کے ایڈیٹرز کی جانب سے اس مضمون میں کیا، تاہم بہت سے افراد نے اس حساس معاملے پر نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر بات چیت کی۔

تمام افراد سے ہونے والی بات چیت میں ایک عام مشاہدہ جو سامنے آیا وہ یہ ہے کہ یہ ٹیرف ڈونلڈ ٹرمپ کے منصوبے کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے، جس کے تحت وہ چین کو دنیا کی سب سے بڑی معیشت بننے سے روکنا چاہتا ہے۔

بیجنگ میں پینگول انسٹیٹیشن میں موجود ایک آزادانہ تحقیقاتی گروپ کے سینئر ریسرچر ان گینگ کا کہنا تھا کہ’ اس تجارتی جنگ سے چین میں ایک خیال یہ سامنے آرہا ہے کہ آیا ایک نئی سرد جنگ کا آغاز ہوگیا ہو‘۔

انہوں نے کہا کہ اس تنازع کے اب عسکری اور اسٹریٹجک اثرات ہیں اور اس سے بیجنگ میں کچھ لوگوں کے درمیان تشویش پائی جاتی ہے کہ کہیں یہ کشیدگی بڑھ کر تائیوان، جنوبی چین سمندر اور شمالی کوریا تک نہ پھیل جائے۔

چین کی اشرافیہ میں ایک بڑی تبدیلی ہے کہ ابتدائی طور پر امریکی صدر کے ٹرانزیکشنل حقیقت پسندی کے بڑھتے ہوئے نظریہ کو خوش آئند کہتے تھے وہ صحیح قیمت کے لیے 375 ارب ڈالر کے حوالے تجارتی خسارے کے معاہدے کو ختم کرنے جارہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ‘چین، امریکا کے ساتھ تجارتی مذاکرات سے قبل شرائط کا قائل نہیں‘

تاہم اب 34 ارب ڈالر کی اشیاء ٹیرف کے ساتھ پہلے سے موجود ہے،اس کے علاوہ 216 ارب ڈالر کی ڈیوٹیز تعطل کا شکار ہیں جس کے باعث ملک کی اکثریت اس مسئلے کا فوری حل نہیں دیکھ رہی۔

چین کے اشرافیہ میں یہ تبدیلی کچھ ماہ قبل آئی، جب ڈونلڈ ٹرمپ نے تجارتی خسارے کو محدود کرنے کے لیے چین کو توانائی اور زرعی سامان کی مزید خریداری کے لیے ایک معاہدے سے روکا تھا، نہ صرف یہ کہ چینی صدر، چین کے تمام طاقتور رہنماؤں اور مذاکرات کے لیے واشنگٹن کو بھیجے گئے سفارتکار کی نہ صرف بےعزتی کی بلکہ بیجنگ میں ایک واضح نقطہ نظر یہ بھی ہے کہ ٹرمپ جب تک اس معاملے سے پیچھے نہیں ہٹے گا جب تک وہ چین کے عروج کو ایک مرتبہ پھر گرا نہیں دیتا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں