آج وزیرِاعظم عمران خان کی کابینہ کے ارکان حلف اٹھا چکے۔

تمام حکومتوں کی خواہشات کا دارومدار کابینہ پر ہوتا ہے مگر وزیرِاعظم خان کی کابینہ کو ایک خاص اہمیت حاصل ہوگی۔ اپنے کیریئر کے اس مقام پر سیاسی تجربہ کار خان صاحب انتظامی بینچ میں نئے نئے ہیں۔ مزید براں، چونکہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے خیبر پختونخوا اور پنجاب میں صوبائی حکومتیں تشکیل دی ہیں اور بلوچستان میں حکومت کی اتحادی ہے، جبکہ سندھ میں اہم حزب اختلاف کا کردار کرنا ہے لیکن کراچی سے قومی اسمبلی کی غالب نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے، لہٰذا خان صاحب کے زیر قیادت پاکستان تحریک انصاف کو وزیراعظم کا زیادہ وقت اور توجہ درکار ہوگی۔

بالآخر اتوار کو وزیرِاعظم عمران خان نے قوم سے خطاب کے دوران ایک پُرعزم گورننس اور اصلاحاتی ایجنڈا پیش کیا۔ خان صاحب کا جو مطالبہ ہے اسے ایک بااختیار اور قابل وفاقی کابینہ پوری کرسکتی ہے۔ تاہم خان صاحب کی جانب سے اپنی پہلی کابینہ میں چند ’اسٹیٹس کو‘ کی نمائندگی کرنے والے چہروں کو شامل کیا جانا مایوس کن ہے۔

جمعے کے روز قومی اسمبلی میں خان صاحب جس معمولی فرق کے ساتھ وزیر اعظم منتخب ہوئے ہیں اس سے پی ٹی آئی کو وفاقی حکومت تشکیل دینے میں پیش آنے والی دشواریوں کا پتہ چلتا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کے علاوہ دیگر جماعتوں کے ممبران کا کابینہ کا حصہ ہونا اس بات کا اشارہ دیتا ہے کہ ایک بہتر طرزِ حکمرانی ڈلیور کرنے میں دشواری پیش آئے گی۔

مزید پڑھیے: وزیراعظم عمران خان نے پہلا دن کیسے گزارا؟

اتحادیوں کے ہاتھوں میں کابینہ کے اہم منصب دینا عام طور پر سربراہ جماعت کے گورننس ایجنڈا کے مقصد کے لیے اچھا نہیں ہے۔ پی ٹی آئی کو پارٹی کے اندر ہونے والی تقسیم کا سامنا کرنا ہے: پارٹی میں ایک وہ ہیں جو الیکٹیبلز ہیں اور دوسرے وہ افراد ہیں جنہیں پی ٹی آئی نے طاقت کی سیاست کی طرف متوجہ کیا، اور یہی افراد چند سالوں سے پارٹی کی اولین صفوں پر غالب ہیں اور وہ چند نوجوان اور اہم پی ٹی آئی ممبران جنہیں حقیقی ایگزیکیٹو اختیار رکھنے والے منصب پر بٹھا دیا گیا ہے۔

غالباً خان صاحب مانتے ہیں کہ تبدیلی وہی لائیں گے اور اسی وزیرِاعظم کے دفتر سے آئے گی جس میں اس وقت وہ بیٹھے ہیں، اس لیے کابینہ کے انتخاب میں سمجھوتے زیادہ معنی نہیں رکھتے۔ تاہم حد سے زیادہ اقتدار کی مرکزیت پسندی خود بھی ایک مسئلہ ہے اور یہ جلد ہی گورننس کو بند راستوں، اپنی مرضی کی فیصلہ سازی اور اقرباء پروری کی طرف لے جاسکتی ہے۔

وزیرِاعظم خان کا وزارتِ داخلہ کا قلمدان فی الوقت اپنے پاس رکھنے کا فیصلہ بھی حیران کن ہے۔

وزارتِ داخلہ کا وسیع قلمدان نہ صرف ملک کے اندر امن و امان قائم رکھنے کے لیے اہم ہے بلکہ عوامی خدمات انجام دینے والے نادرا اور پاسپورٹس کے محکمہ جات بھی اسی وزارت کے ماتحت آتے ہیں۔ سابق وزیرِاعظم نواز شریف کو اپنے آخری دورِ حکومت میں وزیر خارجہ یا دفاع نہ رکھنے پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا اور یہ تنقید درست بھی تھی۔

جب اہم وزارتوں پر کوئی کل وقتی وزیر نہیں لگایا جاتا تب حکومت کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے اور فیصلہ سازی کنفیوژن کی نذر ہوجاتی ہے۔

مزید پڑھیے: وزیراعظم عمران خان کا سیاسی سفر

وزیرِاعظم خان غالباً جانتے ہیں کہ حکومت کے ابتدائی چند مہینوں میں عوام کے لیے پی ٹی آئی کا بطور ایک قومی حکومتی جماعت اچھا تاثر دینا بہت ضروری ہے۔ حکومت کے ابتدائی مراحل بھی بہت اہمیت کے حامل ہیں تاکہ ایجنڈے کو عملی جامہ پہنانے میں سیاسی سرمائے کو خرچ کیا جاسکے۔

خان صاحب کو اب پہلے سے زیادہ بے خوفی اور تخّیلی طور پر کابینہ کے ارکان کا انتخاب کرنا ہوگا۔ امید ہے کہ وفاقی کابینہ میں مزید ارکان کا اضافہ ہوگا جو اس سیاست اور ان اقدار کا مظاہرہ کریں گے جس کا خان صاحب دعوی کرتے ہیں۔

یہ اداریہ 20 اگست 2018ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں