سالوں بعد بچھڑے ہوئے کوریائی خاندانوں کی ملاقات

20 اگست 2018
جنوبی کوریا سے تعلق رکھنے والے افراد اپنے شمالی کوریا میں مقیم بچھڑے ہوئے رشتے داروں سے ملاقات کے لیے تیار ہیں—فوٹو: اے ایف پی
جنوبی کوریا سے تعلق رکھنے والے افراد اپنے شمالی کوریا میں مقیم بچھڑے ہوئے رشتے داروں سے ملاقات کے لیے تیار ہیں—فوٹو: اے ایف پی

سوکچو: جنوبی کوریا کے خاندانوں کے بزرگ اور ضعیف افراد اپنے اہلِ خانہ کے ہمراہ شمالی کوریا میں مقیم تقریباً 7 دہائیوں قبل بچھڑنے والے اپنے خاندان کے دیگر افراد سے ملاقات کے لیے جمع ہوئے۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق جنوبی کوریا اور شمالی کوریا کے سفارتی تعلقات میں بہتری کے سبب تین سال کے عرصے میں ہونے والی اس پہلی تین روزہ ملاقات کا آغاز شمالی کوریا کے ماؤنٹ کم گینگ ریزورٹ میں ہوا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق واضح رہے کہ 53-1950 کے عرصے میں کوریا جنگ کے دوران لاکھوں افراد بچھڑ گئے تھے، ان بچھڑنے والوں میں بہن بھائی، والدین، بچے اور میاں بیوی بھی شامل تھے، جو الگ الگ ملکوں میں مستقل طور پر بس گئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: حالتِ جنگ کے باوجود کوریائی سربراہان امن قائم کرنے پر متفق

ان میں ایک لی کیوم سیوم نامی 92 سالہ خاتون بھی شامل تھیں جو کوریا جنگ کے بعد سے اب پہلی مرتبہ اپنے بیٹے سے ملنے آئیں جو جنگ کے دوران ان سے بچھڑ گیا تھا۔

ان کے بیٹے اب 71 برس کے ہیں جو اپنی اہلیہ کے ہمراہ اپنی والدہ سے ملنے آئیں گے، اس بارے میں لی کیوم سیوم کا کہنا تھا کہ مجھے نہیں معلوم کہ ی اچھا ہے یا برا نہ ہی مجھے یقین آرہا ہے کہ یہ حقیقت ہے یا خواب۔

جنوبی کوریا میں منتقل ہونے کے بعد ان کی دوبارہ شادی ہوئی جس سے ان کے 7 بچے ہوئے لیکن وہ ہمیشہ اپنے بچھڑ جانے والے بیٹے کے بارے میں فکر مند رہیں، اور اب ان کے ذہن میں اپنے بیٹے سےپوچھنے کے لیے سوالات کا انبار ہے کیوں کہ اس وقت وہ صرف 4 سال کا تھا۔

مزید پڑھیں: کوریا میں صدی کا سب سے بڑا جوا! کس کا فائدہ کس کا نقصان؟

چونکہ دونوں ممالک کا تنازع مسلح طور ہر ختم ہوا اور باقاعدہ جنگ بندی کا معاہدہ نہیں ہوا جس کی وجہ سے دونوں ملک تکنیکی اعتبار سے حالت جنگ میں ہیں اور سویلین تبادلے حتیٰ کہ فیملیوں کے درمیان رابطے تک بند تھے۔

واضح رہے کہ سال 2000 سے اب تک دونوں ممالک کے مابین دوبارہ ملاقاتوں کے 20 کوششیں ہوچکی ہیں، لیکن خاندانوں کے ضعیف افراد کے لیے وقت تیزی سے گزر رہا ہے۔

جب بچھڑے خاندانوں کو ملانے کی کوششوں کا آغاز ہوا تقریباً ایک لاکھ 30 ہزار سے زائد جنوبی کوریا کہ افراد نے ملاقاتوں کے لیے درخواستیں دی تھیں جس میں سے اکثریت اب انتقال کرچکی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کوریا کا بٹوارہ: تاریخی حماقت، امریکا کے لیے مستقل دردِ سر

اور جو انتظار کررہے ہیں ان میں سے بھی زیادہ تر کی عمریں 80 سال سے زائد ہیں اور سب سے طویل عمر بزرگ کی عمر 101 سال ہے۔

حالیہ ملاقات کے لیے چنے جانے والے افراد میں سے کافی افراد دستبردار ہوگئے جب انہیں معلوم ہوا کہ ان کے قریبی رشتے دار انتقال کرچکے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں