امریکی نیوی کے سابق عہدیدار اور بدنام زمانہ سیکیورٹی کمپنی بلیک واٹر قائم کرنے والی کاروباری شخصیت ایرک پرنس نے ایک مرتبہ پھر افغانستان میں امریکی جنگ کا ٹھیکہ اپنی ہی نجی کمپنی کو دینے کی تجویز پیش کردی۔

امریکی نشریاتی ادارے وائس آف امریکا کی ایک رپورٹ کے مطابق اس طرح کی اطلاعات سامنے آرہی ہیں کہ ایرک پرنس کی جانب سے پیش کی گئی اس تجویز میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کافی دلچسپی لے رہی ہے جبکہ افغان حکام کی جانب سے اسے گمراہ کن قرار دیا جارہا ہے۔

ایرک پرنس کی جانب سے امریکی صدر کو اپنی تجویز کی طرف راغب کرنے کے لیے میڈیا میں ایک مہم بھی چلائی جارہی ہے اور ڈونلڈ ٹرمپ کو یہ بات باور کرائی جارہی ہے کہ ان کے اس منصوبے سے اخراجات کم ہوں گے اور افغانستان میں امریکی فوجیوں پر دباؤ بھی کم ہوگا جبکہ ان کی سیکیورٹی کمپنی افغان فوج کی تربیت کے حوالے سے بھی کردار ادا کرسکتی ہے۔

مزید پڑھیں: ٹرمپ کےنام طالبان کا 'کھلا خط'، افغانستان سےنکل جانے کا مطالبہ

امریکی نیوی کے سابق عہدیدار ایرک پرنس کی بات کی جائے تو انہوں نے بلیک واٹر کے نام سے ایک سیکیورٹی کمپنی بنائی تھی، جو عراق میں سیکیورٹی کا کام کر رہی تھی، تاہم کمپنی پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات لگنے کے باعث کمپنی کو فروخت کردیا گیا تھا لیکن امریکا اور دیگر حکومتوں کو سیکیورٹی کی خدمات فراہم کرنے کے لیے دوسری کمپنیاں قائم کردی گئی تھیں۔

2017 میں پیش کردہ منصوبہ

امریکا کی کاروباری شخصیت کی جانب سے گزشتہ برس اس وقت منصوبہ پیش کیا گیا تھا جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ افغانستان کی حکمت عملی کا جائزہ لے رہی تھی لیکن اس وقت یہ منصوبہ واشنگٹن یا کابل کی توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہا تھا۔

تاہم نئی افغان حکمت عملی کے ایک سال مکمل ہونے اور مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکامی کے بعد ایرک پرنس کو امید ہے کہ ان کا یہ منصوبہ اس مرتبہ توجہ حاصل کرلے گا۔

اس حوالے سے ایرک پرنس کی جانب سے پشتو اور دری زبان میں ویڈیوز بھی جاری کی گئی ہیں، جس میں تجویز کے بارے میں بتایا گیا ہے۔

اس صورتحال پر امریکی نشریاتی ادارے این بی سی نیوز نے رپورٹ کیا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ، ایرک پرنس کی ویڈیو دیکھنے کے بعد اس منصوبے سے متاثر نظر آرہے ہیں کیونکہ وہ افغانستان میں امریکی حکمت عملی کو ناکام ہوتے دیکھ رہے ہیں۔

یہاں یہ بات واضح رہے کہ اگر ایرک پرنس کا منصوبہ منظور ہوجاتا ہے تو افغانستان میں موجود ہزاروں امریکی فوجیوں کی واپسی ہوجائے گی اور ان کی جگہ کچھ نجی ٹھیکے دار لے لیں گے، جنہیں نجی ایئرفورس کے 90 طیاروں کی مدد چاہیے ہوگی۔

افغان مخالفت

دوسری جانب پینٹاگون کے مطابق اس وقت امریکا افغانستان میں سالانہ 45 ارب ڈالر خرچ کر رہا ہے جبکہ ایرک پرنس کا دعویٰ ہے کہ ان کی کمپنی یہ کام 10 ارب ڈالر سے بھی کم میں انجام دے سکتی ہے۔

تاہم کچھ ماہرین کی نظر میں یہ دعویٰ محض دعویٰ ہے اور منصوبے پر عمل سے اس طرح کے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں جو اس سے پہلے عراق اور افغانستان میں بلیک واٹر کے اہلکاروں پر قتل کے الزام کی صورت میں سامنے آئے تھے۔

اس حوالے سے افغان صدارتی ترجمان ہارون چخان سوری کا کہنا تھا کہ افغان حکومت اور عوام دونوں کی جانب سے اس نجکاری کے منصوبے کی مخالفت کی گئی ہے۔

امریکا اور افغان جنگ

افغان جنگ کی تاریخ کی بات کی جائے تو اس کا آغاز 17 سال قبل اکتوبر 2001 میں ہوا تھا۔

11 ستمبر 2001 میں امریکا میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کو جہاز سے اڑا دیا گیا تھا، جس کے بعد امریکا نے اس واقعے کی ذمہ داری القاعدہ پر عائد کرتے ہوئے اگلے ماہ ہی افغانستان میں جنگ کا آغاز کردیا تھا۔

ابتدائی طور پر اس جنگ میں امریکا کے ساتھ برطانیہ اور کینیڈا شامل تھے لیکن بعد میں نیٹو اتحادیوں سمیت 40 ممالک کی فوجیں اس میں شامل ہوگئی تھی۔

اس جنگ کا مقصد القاعدہ کا خاتمہ اور افغانستان میں طالبان کے اقتدار کو ختم کرنا تھا لیکن 17 سال سے جاری اس جنگ میں امریکا اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہا۔

افغان جنگ کو ویتنام جنگ کے بعد امریکی تاریخ کی دوسری بڑی جنگ بھی کہا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا کا مزید عسکری مشیر افغانستان بھیجنے کا فیصلہ

اس جنگ میں افغان فوجیوں اور پولیس کی تقریباً 3 لاکھ 50 ہزار کی قوت موجود ہے جبکہ امریکی فوجیوں کی تعداد 14 ہزار تک ہے۔

امریکا کی جانب سے ہر حکومت میں افغانستان کے حوالے سے پالیسیوں میں تبدیلیاں کی جاتی رہی ہیں تاہم وہ مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔

سابق امریکی صدر باراک اوباما کی جانب سے ایک وقت میں افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد کم کرنے کا کہا گیا تھا، تاہم موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی پالیسی میں افغانستان میں مزید فوجی اہلکار بھیجے تھے۔

اس 17 سالہ جنگ میں امریکا اب تک کھربوں ڈالر خرچ کرچکا ہے جبکہ اس کے تقریباً 2500 سے زائد فوجی ہلاک اور 17000 کے قریب زخمی بھی ہوئے ہیں۔

افغان جنگ میں شامل فریقین کی جانب سے نتائج حاصل نہ ہونے کے بعد کئی مرتبہ دونوں جانب سے مذاکرات کی پیش کش بھی کی گئی ہے اور اس سلسلے میں امریکا اور افغان طالبان کے درمیان براہ راست ملاقات بھی ہوئی تھی، تاہم مسئلے کا اب تک پائیدار حل نہیں نکل سکا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں