اس عیدالاضحیٰ پر پاکستانی سنیما گھروں میں تین پاکستانی فلمیں نمائش کے لیے پیش کی گئی ہیں، جن کے نام جوانی پھر نہیں آنی، لوڈ ویڈنگ اور پرواز ہے جنوں ہیں۔ ان میں سے تیسری فلم 'پرواز ہے جنوں' کا تبصرہ یہاں پیش خدمت ہے۔

فلم کا موضوع پاکستان ایئر فورس سے تعلق رکھنے والے پائلٹوں کی پیشہ ورانہ جدوجہد اور ریاضت سے متعلق ہے، اس اہم ترین موضوع کے ذریعے، فلم میں ان جانبازوں کا ملک کے لیے جذبہ حب الوطنی اور ان کی فرض شناسی دکھائی گئی ہے جبکہ ساتھ ساتھ انسانی رشتوں میں محبت کے رنگ بھی اجاگر کیے گئے ہیں۔

یہ فلم موضوع کے اعتبار سے، عمدہ مگر تکنیکی اعتبار سے ایک کمزور فلم ہے۔

آفیشل ٹریلر

کہانی و مکالمے

اس فلم کی کہانی نویس فرحت اشتیاق ہیں جن کا معروف حوالہ ڈائجسٹوں میں ناول نگاری رہا اور اب وہ ٹیلی وژن کی ڈراما نگار کے طور پر بھی معروف ہیں۔ کہانی کا مرکزی خیال بہت شاندار ہے، لیکن جس طرح اسے فلم کے پردے پر بیان کیا گیا، وہ انتہائی سطحی اور عامیانہ ہے۔

مصنفہ چوں کہ ڈراموں اور ڈائجسٹوں کی لکھاری ہیں، اس لیے فلم میں بھی انہوں نے کوئی تکلف نہیں اٹھا رکھا اور اسی پرانے فارمولے پر کہانی لکھی ہے۔ دو گہرے دوست ہیں اور دونوں ایئر فورس کے پائلٹ بھی ہیں۔ پھر ایک دوست کی بیوی کی کزن سے دوسرے دوست کو پیار ہو جاتا ہے، مگر اس کے والدین نہیں مانتے۔ اس دوران وہ ایک جنگی آپریشن میں شہید ہو جاتا ہے۔

فلم کا آفیشل پوسٹر۔
فلم کا آفیشل پوسٹر۔

اب اس کی ہونے والی بیوی اس کی محبت میں ایئرفورس میں شامل ہوجاتی ہے۔ وہاں اسے ایک اور فائٹر پائلٹ پیار کرنے لگتا ہے۔ فلم دونوں کے ہنستے مسکراتے سین پر ختم ہوتی ہے، جبکہ فلم کے ابتدائی منظر میں دکھایا گیا تھا کہ وہی ہیروئن اپنے پہلے ہونے والے شوہر سے بچھڑنے کے غم میں بہت ساری چائے پی رہی ہوتی ہے، اسے یاد کر رہی ہوتی ہے، کیوں کہ وہ اس جگہ پر اکثر اس کے ساتھ چائے پیا کرتا تھا، لیکن وہی اداس ہیروئن فلم کے آخرمیں خاصی خوش دکھائی دی۔ اسے فلم میں ایک ہی وقت کے دوران اداس اور خوش دکھایا گیا ہے جو کہ ایک کنفیوز کردار کی علامت ہے۔

اس دوران فلم میں مزید کئی کردار آتے جاتے رہتے ہیں، جن کی اکثریت غیر متاثر کن ثابت ہوئی۔ مصنفہ کے لکھے مکالمے بوجھل، بے ربط اور بغیر کسی جذبہ حب الوطنی کا احساس لیے ہوئے ہیں۔

اس کے علاوہ فلم کی کہانی میں کئی سین پورے کے پورے نقل کیے ہوئے ہیں۔ مثلاً فلم میں کیڈٹس کا رسالپور اکیڈمی پہنچنے پر سینیئرز کی طرف سے استقبال کا طریقہ، یا پھر میس میں کھانے کے دوران دی جانے والی بیوقوفانہ سزائیں، یہ مناظر ایک ٹیلی فلم 'اک تھی مریم' سے نقل کیے گئے ہیں، جو دو سال پہلے ایک نجی ادارے کے تحت ریلیز ہوئی تھی۔

فلم سازی و ہدایت کاری

اس کی فلم ساز مومنہ دُرید ہیں، جن کا تعلق ہم نیٹ ورک سے ہے۔ مومنہ ٹیلی وژن کے لیے متعدد ڈرامے بھی پروڈیوس کرچکی ہیں۔ یہ ان کی دوسری فلم ہے جسے انہوں نے پروڈیوس کیا ہے۔ اس فلم سازی کے لیے انہیں پاکستان ایئر فورس کا اشتراک بھی حاصل تھا، جس کا عملی مظاہرہ فلم میں دکھائی بھی دیا، ورنہ ایف سولہ طیاروں کے ذریعے فلم کی عکس بندی اور دیگر تکنیکی معاملات ادھورے رہتے۔

اس فلم کے ہدایت کار حسیب حسن ہیں، جن کی یہ پہلی فلم ہے۔ اگر یہ کم ازکم عاشر عظیم کی فلم 'مالک' اور وقاص رانا کی فلم 'یلغار' ہی دیکھ لیتے، تو جنگی مناظر کو اتنے بے ربط اور بے ترتیب انداز میں نہ فلماتے۔ یہ ڈراما انڈسٹری کے مقبول ہدایت کار ہیں۔ انہیں اس بات کا دھیان رکھنا ہوگا کہ فلم اور ڈراما کے ناظرین چوں کہ بالکل مختلف ہوتے ہیں، اس لیے انہیں آسانی سے بہلایا نہیں جا سکتا۔

فلم میں جو تھوڑے بہت اچھے مناظر ہیں، یعنی جہازوں وغیرہ کی پرواز کے، وہ کریڈٹ ایئر فورس کا ہے، ہدایت کار نے جہاں اپنی صلاحیتیں دکھانی تھیں، وہاں ناکام رہے۔ مثال کے طور پر فائٹر پائلٹ آپریشن تھیٹر میں زندگی اور موت کی کشمکش میں ہے، اس دوران اسے اپنی ہونے والی بیوی سے فون پر بات کروائی جا رہی ہے۔

مان لیتے ہیں کہ اس کی آخری خواہش کے طور پر ایسا کیا گیا لیکن جتنی دیر وہ بات کرتا رہا، اس دوران اس کے ارد گرد کھڑے ڈاکٹرز اور طبی عملے کے اطمینان کو دیکھ کر بالکل محسوس نہیں ہوا کہ وہ زندگی اور موت کی لڑائی لڑ رہا ہے۔ نزاع کا یہ عالم صرف ہیرو کی گفتگو تک ہی محدود دکھائی دیا۔ ہدایت کار اس ہنگامی کیفیت کو فلمانہ پائے۔

موسیقی و اداکاری

فلم کے موسیقاروں میں اذان سمیع خان اور شجاع حیدر ہیں، جبکہ گلوکاروں میں عاطف اسلم اور شجاح حیدر سمیت کئی گلوکاروں نے اپنی آواز کا جادو جگایا۔

فلم کا سب سے متاثر کن گیت 'میں اڑا' ہے، جس کو شجاع حیدر نے گایا اور دھن بھی انہوں نے ہی مرتب کی۔ اگر اس گیت کو تھیم کے طور پر فلم میں مختلف مناظر کے پس منظر میں بھی استعمال کیا جاتا تو شاید فلم بین اس کہانی سے جذباتی طور پر جڑ جاتے، لیکن کلائمکس کے مناظر میں، جو ویسے ہی کمزور کلائمکس تھا، وہاں ایک قوالی شامل کی گئی اور اس عمدہ دھن کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا۔

اذان کی مرتب کی ہوئی دیگر دھنیں 'بلھیا' اور 'تھام لو' بھی مسحور کن تھیں۔ ایک موسیقار کی حیثیت سے ان کا یہ ابتدائی کام سراہے جانے کے قابل ہے۔

میں اڑا کی میوزک ویڈیو

فلم کی کاسٹ میں کئی ایسے چہرے ہیں جن کی یہ پہلی فلم ہے۔ سرِفہرست احد رضا میر اور ہانیہ عامر ہیں۔ شفاعت علی، کبریٰ خان، عدنان جعفر نے اچھی اداکاری کی۔ فلم کی ہیروئن ہانیہ عامر اور سائیڈ ہیرو احد رضا میر اپنی اداکاری سے متاثر کرنے میں ناکام رہے۔

رشید ناز اور مرینہ خان جیسے فنکاروں کو فلم میں صرف ضایع کیا گیا۔ حمزہ علی عباسی اور آصف رضا میر نے اپنے کرداروں سے البتہ خوب انصاف کیا۔ دیگر ثانوی اداکاروں کی موجودگی بہت زیادہ محسوس نہیں ہوئی۔ شاید اس کی وجہ کمزور انداز سے لکھی جانے والی کہانی اور مکالموں کا کمزور ہونا تھا۔

تنازعات اور تکنیکی غلطیاں

اس فلم کے حوالے سے جب ایک اداکارہ کبریٰ خان کا پوسٹر ریلیز کیا گیا تو بعد میں پتہ چلا کہ وہ ہولی وڈ کی فلم کے ایک پوسٹرکی ہوبہو نقل ہے۔ اسی طرح ایک ہیئر اسٹائلسٹ کی طرف سے اس فلم کی پروڈکشن ٹیم کو لیگل نوٹس مل گیا، کیوں کہ وہ صاحب پہلے اس فلم کے عملے کا حصہ تھے۔ بعد میں الگ کر دیے گئے، مگر فلم کی پروموشن میں ان کا نام استعمال کیا جا رہا تھا۔

اسی طرح فلم کی ایک تصویر میں حمزہ علی عباسی، ہانیہ عامر اور شاز خان ایئر فورس کی وردی پہنے ساتھ ساتھ کھڑے ہیں، لیکن ہانیہ کے یونیفارم پر کسی مرد کے نام کا لیبل چسپاں ہے، سوشل میڈیا پر اس کا بھی بہت مذاق بنا۔

سب سے بڑا اور آخری تنازعہ کراچی میں اس فلم کا پریمیئر منسوخ کیا جانا تھا، جس کو عین وقت پر وفاقی سینسر بورڈ کی طرف سے روکا جانا تھا۔ مزید میں بتا چکا ہوں، فلم کی ابتدائی کہانی اور تربیت کے دنوں میں کرداروں کی حرکات و سکنات کو بھی ادھر ادھر سے نقل کیا گیا، جس کا ایک حوالہ 'اک تھی مریم' ٹیلی فلم ہے، جس کا موضوع بھی پاکستان ایئر فورس کی ایک خاتون پائلٹ ہی تھیں۔

فلم کا ایک پوسٹر جو ہالی وڈ فلم لیٹرز ٹو جولیئٹ کی نقل تھا۔
فلم کا ایک پوسٹر جو ہالی وڈ فلم لیٹرز ٹو جولیئٹ کی نقل تھا۔

نتیجہ

پاکستانی ڈراما انڈسٹری کو کبھی نہ کبھی یہ سوچنا پڑے گا کہ ایک ہی لاٹھی سے ڈرامے اور فلم کو نہیں ہانکا جاسکتا۔ یہ دو مختلف میڈیمز ہیں، ان کے لیے مختلف صلاحیتوں کا حامل ہونا بہت ضروری ہے۔

اگر ایسا نہیں ہوتا تو ایک ڈراما پروڈکشن ہاؤس، ایک ڈراما نویس کی لکھی ہوئی کہانی میں، ایک ڈراما ہدایت کار کو لے کر، ڈراما کے بہت سارے اداکاروں کے ذریعے ایک اچھا ڈراما تو بنایا جا سکتا ہے ، ٹیلی فلم بھی بنائی جاسکتی ہے مگر فیچر فلم نہیں۔ ورنہ اسکرین پر صرف ڈراما ہی دکھائی دے گا، جس طرح اس فلم میں دکھائی دیا۔

تبصرے (0) بند ہیں