ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارتی ریاست کیرالا میں سیلاب سے ہونے والی تباہی نے پاکستان کے لیے بھی سیلاب کا خطرہ بڑھادیا ہے, جس سے نمٹنے کے لیے شہری آبادی اور بڑے ڈیموں کی جلد تعمیر ضروری ہے۔

پاکستان کے ماحولیاتی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان خطے میں ایسے علاقے میں واقع ہے جو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے زیادہ متاثر ہوسکتا ہے اور یہ ضروری ہے کہ واٹر سیکٹر کی تمام انتظامیہ حالیہ واقعات کی روشنی میں خطرات کا جائزہ لے۔

حال ہی میں ڈان کی ایک رپورٹ نے خبردار کیا تھا کہ ’خطے میں وقوع پذیر ہونے والی موسمیاتی تبدیلیاں پانی کے وسائل پر گہرے اثرات مرتب کریں گی جس کے لیے پانی کے تمام منصوبوں کا بروقت جائزہ ضروری ہے۔‘

رپورٹ کے مطابق ’دریائے سندھ پر بڑے ڈیمز تعمیر کرنے کے منصوبوں کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کی تحقیق پر مبنی ہونا چاہیے،‘یہ پانی کے بچاؤ میں زیادہ قابل بھروسہ طریقوں کی تلاش میں مدد فراہم کرسکتا ہے۔

اگر پالیسی ساز کوئی صحیح طریقہ کار نہیں اپناتے تو اسٹیک ہولڈرز کے درمیان پانی کی تقسیم پر تنازعات میں ایک اور وجہ کا اضافہ ہوجائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت: کیرالا میں سیلاب سے ہلاکتوں کی تعداد 350 سے متجاوز

ڈان کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ تین دہائیوں میں دریائے سندھ پر نئے ڈیمز بنانے کے باعث دریا کے بالائی اور نشیبی علاقوں میں تنازعات جاری ہیں۔

سندھ کا نشیبی علاقہ دریائے سندھ پر ڈیمز بنانے کے خلاف ہے،وہ سیلابی میدانوں اور ڈیلٹا پر بڑے ڈیموں کی تعمیر سے منفی سماجی اور ماحولیاتی اثرات کے باعث اس کی مخالفت کرتا ہے ۔

ارون دھتی رائے نے اپنے ناول میں لکھا تھا کہ ’ایسی آفات لوگوں کے لیے بہترین اور بدترین ہوسکتی ہیں ۔‘ ان کا پہلا مشہور ترین ناول کوٹایم کے علاقے پر مبنی تھا جو کیرالا میں حالیہ سیلاب کی تباہی کا شکار ہے۔

انہوں نے ملایالہ منوراما کے انگلش پورٹل پر لکھا کہ ’رواں سال کیرالا میں ، جس مون سون کا ہم انتظار کرتے ہیں اور جن دریاؤں سے ہم محبت کا اظہار کرتے ہیں وہ ہماری باتوں کا جواب دے رہے ہیں۔‘

انہوں نے لکھا کہ میرے قلم کی سیاہی ہی میرے لیے بارش تھی اور میرا دریا مناچل تھا جس نے میری کہانی کو آگے بڑھایا اور مجھے وہ لکھاری بنایا جو میں آج ہوں۔

ماہرین کے مطابق بڑھتی ہوئی گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تبدیلی کی قیمت سب سے پہلے پہاڑی اور ساحلی علاقوں کو ادا کرنا پڑے گی، موسمیاتی تباہیوں کی شدت میں اب صرف اضافہ ہوگا۔

ارون دھتی رائے نے لکھا کہ ’کیلیفورنیا جل رہا ہے، کیرالا ڈوب رہا ہے۔ ہمارا عزیز ترین کیرالا زمین کی اس پٹی پر واقع ہے جہاں ایک طرف پہاڑ ہیں اور دوسری جانب سمندر، ہم اس سے زیادہ خطرہ نہیں لے سکتے۔

مادھو گیڈگل کی رپورٹ میں ایسی ہی صورتحال کی توقع کی گئی تھی کہ اگر حکومت کرپٹ سیاستدانوں، بزنس مین اور صنعت کاروں کی غیر منصفانہ تعمیرات کو روکنے کے لیے سنجیدہ اقدامات نہیں کرتی تو خطرناک نتائج ہوں گے۔

ارون دھتی رائے نے پوچھا کہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ مرکزی واٹر کمیشن نے سیلاب کی پیش گوئی نہیں کی؟ ایسا کیسے ہوا کہ وہ ڈیم جو سیلاب کو قابو میں رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ان میں جمع ہونے والا پانی ڈیمز سے باہر آگیا جس نے اس آفت کو کئی گنا بڑھادیا۔

ارون دھتی رائے گیڈگل کی تشویش سے بھی پریشان ہیں جو یہ کہتے ہیں اگر آج کیرالا ہے تو کل گووا بھی ہوسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’بے لگام لالچ جنگلات کی کٹائی کرکے امراء کے لیے غیر قانونی ریزورٹس اور گھروں کی تعمیر، غیر قانونی تعمیرات جنہوں نے قدرتی نکاس کو ایک مسئلہ بنادیا یے، پانی ذخیرہ کرنے کے قدرتی نظام کی تباہی ،ڈیموں کی بدانتظامی نے، جو کچھ بھی آج کیرالا میں ہورہا ہے اس میں ایک بڑا کردار ادا کیا ہے‘

اب پوری کیرالا ریاست میں ریسکیو کا کام جاری ہے، ایسے موقع پر کمیونسٹ حکومت کو ہندوتوا گروہ کی جانب سے جعلی خبروں کا بھی سامنا ہے۔

ہندوتوا گروہ سے قریبی تعلق رکھنے والے ایک سینئر عہدیدار کا کہنا ہے کہ یہ آفت خواتین کو ایک ہندو مندر میں جانے کی اجازت نہ دینے کی سزا ہے۔

واضح رہے کہ بھارتی ریاست کیرالا میں مون سون بارشوں کے بعد سیلاب سے پھیلنے والی تباہی میں ہلاکتوں کی تعداد 350 سے تجاوز کرگئی جبکہ ہزاروں افراد خوراک اور پانی کے بغیر بے یار و مددگار پڑے ہوئے ہیں۔

کیرالا میں سیلاب نے گاؤں کے گاؤں کو تہس نہس کر دیا ہے اور امدادی کارکنوں کی جانب سے ہلاکتوں میں خطرناک حد تک اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں