اقوام متحدہ کے ماہرین نے ایران سے جوہری معاہدے سے دست برداری کے بعد امریکا کی جانب سے دوبارہ پابندیاں عائد کرنے پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح ’ لاکھوں افراد کو غربت کی طرف دھکیلا جا رہا ہے'۔

اقوام متحدہ کے خصوصی مندوب ادریس جزائری نے ایک بیان میں کہا ہے کہ امریکا اس جوہری معاہدے سے دست بردار ہوا جس کی توثیق اقوام متحدہ نے بھی کی تھی اور اس کے بعد ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کردیں جو غیرمنصفانہ اور نقصان دہ ہیں۔

خیال ر رہے کہ اقوام متحدہ کے خصوصی مندوب کی جانب سے یہ بیان رواں ماہ کے آغاز میں ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے ایران پر معاشی پابندیاں عائد کرنے کے بعد پہلی مرتبہ سامنے آیا ہے جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے رواں سال مئی میں جوہری معاہدے سے دست برداری کا اعلان کیا تھا۔

ایران پابندیوں کا دوسرا مرحلہ رواں سال نومبر میں متوقع ہے جب متوقع طور پر ایران کی درآمدات پر پابندی عائد کی جائے گی۔

مزید پڑھیں : امریکا نے ایران پر دوبارہ معاشی پابندیاں عائد کردیں

ادریس جزائری اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور ان احکامات سے پڑنے والے منفی اثرات کے حوالے سے خصوصی مندوب کے طور پر فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’بین الاقوامی پابندیوں کے پیچھے قانونی مقصد لازمی طور پر شامل ہونا چاہیے جو عام شہریوں کے حقوق کو نقصان نہ پہنچائے لیکن اس معاملے میں ایسا کچھ نہیں کیا گیا'۔

ادریش جزائری نے کہا کہ موجودہ حالات میں نظام عدم استحکام کا شکار ہے کیونکہ ایران کے لیے ممکن نہیں کہ وہ ضروری اشیاء بھی برآمد کرسکے۔

انھوں نے کہا ہکہ عالمی میڈیا اس بات پر غور کرنے میں ناکام ہے کہ یہ عدم استحکام ہسپتالوں میں ادویات کی کمی کے باعث کئی اموات کی وجہ بنے گا۔

امریکی پابندیوں کو ’ غیر منصفانہ اور نقصان دہ ‘ قرار دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’یہ ایران کی معیشیت اور کرنسی کو تباہ کرتے ہوئے لاکھوں افراد کو غربت کی جانب دھکیل رہے ہیں اور برآمدی اشیا کو ناقابل استطاعت بنارہے ہیں جس میں بنیادی انسانی ضروریات پر مشتمل اشیا بھی شامل ہیں۔

اقوام متحدہ نے امریکا پر زور دیا ہے کہ وہ ایران سے اپنے معاہدے کو نبھاتے ہوئے زرعی اجناس، غذا، ادویات اور میڈیکل آلات کی برآمد کی اجازت دے اور ٹھوس اقدامات کرتے ہوئے اس امر کو یقینی بنائے کہ بینک، مالی ادارے اور کمپنیاں فوری اور آسانی سے تصدیق کریں کہ ضرروی امداد اور ادائیگیوں کی اجازت دی گئی ہے۔

خیال رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے صدر بنتے ہی ایران کے جوہری ہتھیاروں کے پروگرام کے حوالے سے سخت تنقیدی رویہ اپناتے ہوئے مسلسل دباؤ میں رکھا ہوا ہے جبکہ ایران ان تمام الزامات کو مسترد کرتا رہا ہے۔

وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن نے 22 اگست کو اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ امریکا نہیں چاہتا کہ ایران کی موجودہ حکومت ختم ہو لیکن تہران میں موجود حکام کے رویوں میں تبدیلی چاہتا ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق جان بولٹن نے اسرائیل میں ایک نیوز پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’یہ واضح کررہا ہوں کہ ایرانی حکومت کی تبدیلی امریکاکی پالیسی نہیں لیکن ہم ان کے رویوں میں بڑے پیمانے پر تبدیلی کے خواہاں ہیں'۔

یہ بھی پڑھیں : امریکا کی ایران پر پابندیاں: پہلے مرحلے میں گاڑیوں اور طیاروں کی صنعت متاثر ہوگی

انہوں نے عالمی برادری کی جانب سے اقتصادی تسلط کی مخالفت کی کوششوں کو سراہا اور کہا کہ میں یورپی یونین کا شکر گزارہوں کہ انہوں نے اس ناانصافی سے نمٹنے کے لیے قانون اور مذاکرات دونوں سے کام لیتے ہوئے یورپی کمپنیوں کو امریکی پابندیوں سے بچایا۔

ادریس جزائری کا کہنا تھا کہ میں امید کرتا ہوں کہ عالمی برادری معاشی جنگ کو روکنے کے لیے کوشش کرے گی۔

انہوں نے اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت ریاستوں کے درمیان دوستانہ اور باہمی تعلقات کے لیے عالمی قوانین کو بھی اجاگر کیا ہے جو اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ریاستیں اپنے مسائل مذاکرات کے ذریعے حل کریں اور معیشیت، سیاست اور دیگر اقدامات کے ذریعے دوسری ریاست کو بنیادی حقوق کے حوالے سے بزور طاقت دباؤ نہ ڈالے۔

اقوام متحدہ کے خصوصی مندوب نے تنبیہ کی ہے کہ یہ یک طرفہ پابندیاں عالمی سطح پر ایک معاشی جنگ کی وجہ بن سکتی ہیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

کاشف حیدر Aug 24, 2018 08:20am
امریکہ کو قتل و غارتگری کے حوالے سے کسی بھی ملک پر 'بے جا دباؤ' ڈالنے سے پیشتر اپنا 'رنگین' چہرہ آئینے میں دسیوں بار دیکھنا چاہیئے۔