امریکا نے ایران پر اقتصادی پابندیوں کی معطلی کے لیے درخواست پر عالمی عدالت کے دائرہ کار کو مسترد کردیا ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق امریکا نے اقوام متحدہ کے ججز کو کہا ہے کہ ایران پر امریکا کی پابندیوں کے خلاف تہران کے مطالبات ان کے دائرہ اختیار میں نہیں ہیں۔

واشنگٹن نے اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے دائر کے گئے کیس میں اپنے پہلے جواب میں سیکیورٹی خدشات کو ظاہر کیا۔

ایران کا کہنا تھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پابندیوں کے دوبارہ اطلاق کے اپنے فیصلے سے 1955 کے معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے۔

مزید پڑھیں: اقوام متحدہ کی عدالت میں ایران کا امریکی پابندیوں کے خلاف مقابلہ

تاہم امریکا کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے وکیل جینیفر نیوزٹیڈ نے دی ہیگ کی عالمی عدالت برائے انصاف (آئی سی جے) کو بتایا کہ ایران کا دعویٰ سننے کا اختیار عدالت کے پاس نہیں‘۔

انہوں نے مؤقف اپنایا کہ امریکا کو اپنی قومی سلامتی اور دیگر مفاد کی حفاظت کرنے کا اختیار حاصل ہے۔

واضح رہے کہ 2015 میں جرمنی میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے 5 مستقل رکن کے ساتھ تاریخ ساز معاہدے کے بعد ایران پر سے پابندیاں ختم کردی گئی تھیں جس کے بدلے میں تہران نے جوہری ہتھیار بنانے کا منصوبہ ترک کرنے کا وعدہ کیا تھا۔

تاہم ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ایران سے خطرات ختم کرنے کے لیے یہ معاہدہ کافی نہیں ہے۔

انہوں نے رواں سال مئی کے مہینے میں یہ معاہدہ ختم کرتے ہوئے رواں ماہ ایران پر دوبارہ پابندیاں لگانی شروع کردی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا کی ایران پر پابندیاں غیر منصفانہ، نقصان دہ ہیں: اقوام متحدہ

گزشتہ روز عالمی عدالت میں ایران کے نمائندے محسن محبی نے امریکا پر کھلے عام معاشی جنگ کے آغاز کا الزام لگایا تھا۔

ان کی ٹیم کے وکیلوں نے دی ہیگ کی عدالت کو بتایا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے اقدامات نے ایران کی معیشت پر منفی اثرات چھوڑے ہیں اور ایران کے شہریوں کی فلاح کے لیے خطرہ کھڑا کردیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکا عوامی سطح پر اپنی پالیسیوں کے ذریعے ایران کی معیشت اور ایرانی کمپنیوں کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایران تمام پرامن طریقوں سے امریکا کے معاشی حملے کو روکنے کی کوشش کرے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں