ایک برس قبل فلسطین سے تعلق رکھنے والے زخمی کو قتل کرنے والے سابق اسرائیلی فوجی نے جیل سے رہائی کے بعد اپنے پہلے انٹرویو میں کہا ہے کہ انھیں اس عمل پر ’کوئی افسوس نہیں‘ ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی 'اے پی' کے مطابق فلسطینی زخمی شہری کو سر میں گولی مارنے کے جرم میں سزا پانے والے اسرائیلی فوجی ایلور عزریا نے رہائی کے تین ماہ بعد ایک انٹرویو میں اپنے جرم کے حوالے سے کھل کر اظہار کیا۔

عبرانی زبان کے اخبار روزنامہ اسرائیل ہیوم کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ایلور عزریا نے کہا کہ اگر مغربی کنارے کے شہر الخلیل میں مارچ 2016 میں پیش آنے والا واقعہ دوبارہ رونما ہو سکے تو 'میں بالکل اسی طرح کا عمل کروں گا کیونکہ مجھے ایسا ہی کام کرنے کی ضرورت ہے'۔

مزید پڑھیں: زخمی فلسطینی کا قتل:اسرائیلی فوجی کو 18 ماہ قید

ایلور عزریا نے ’قتل‘ کے جرم میں دی گئی 14 سالہ سزا کا دوتہائی حصہ قید میں گزاری جس کو کم کردیا گیا تھا۔

عزریا نے انٹرویو میں کہا کہ فوج نے انہیں تنہا کردیا حالانکہ جو کیا تھا وہ کئی اسرائیلیوں کے قومی جذبات تھے۔

واضح رہے کہ گزشتہ سال اسرائیل کی فوجی عدالت نے زخمی فلسطینی شہری کو سر میں گولی مار کر قتل کرنے والے فوجی ایلور عزریا کو 18 ماہ قید کی سزا سنائی تھی۔

ایلور عزریا نے مارچ 2016 میں نہتے فلسطینی شہری کو قتل کیا تھا جس کے بعد اسے قتل غیر عمد کا مجرم قرار دے گیا تھا۔

آرمی کے میڈیکل یونٹ سے تعلق رکھنے والے سارجنٹ عزریا کے خلاف مقدمے کی سماعت تقریباً تین گھنٹے تک جاری رہی تھی اور اس دوران تین رکنی پینل کی سربراہی کرنے والی جج کرنل مایا ہیلر نے عزریا کے وکیل کی جانب سے پیش کی جانے والی صفائی کو مسترد کردیا تھا۔

انہوں نے اپنے فیصلے میں کہا کہ عزریا کے اس موقف میں کوئی وزن نہیں کہ فلسطینی شخص پہلے ہی مر چکا تھا یا اس نے اس لیے گولی چلائی کیوں کہ وہ جان کے لیے خطرہ تھا۔

جج نے کہا کہ 'عزریا کے دلائل قبول کرنے کی کوئی گنجائش نہیں، اس نے محض اس لیے قتل کیا کیوں کہ وہ سوچتا ہے کہ دہشت گردوں کو مر جانا چاہیے'۔

اسرائیلی تاریخ میں ایسا بہت کم دیکھا گیا ہے کہ فلسطینی شہری کو فائرنگ کرکے قتل کرنے والے کسی فوجی پر مقدمہ چلایا گیا ہو اور اسے سزا بھی سنائی گئی ہو۔

تبصرے (0) بند ہیں