سیکیورٹی ادارے صرف اپنی اجارہ داری چاہتے ہیں مگر احتساب نہیں، ایچ آر سی پی

اپ ڈیٹ 30 اگست 2018
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے اراکین نے فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ پیش کردی—فوٹو:ڈان اخبار
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے اراکین نے فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ پیش کردی—فوٹو:ڈان اخبار

اسلام آباد: ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے ذرائع ابلاغ پر بڑھتی ہوئی پابندیوں پر خدشات کا اظہار کرتے ہوئےحکومتی اور ملٹری ایجینسیوں کو صورتحال کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق ایچ آر سی پی کی جانب سے منعقد پریس کانفرنس میں آزادی اظہارِ رائے پر پابندیوں کے حوالے سے فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ پیش کی گئی۔

کمیشن نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں اور دیگر ریاستی اداروں سے ملک میں آزادی اظہارِ رائے پر عائد قدغن روکنے کےلیے اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کیا۔

ایچ آر سی پی کے ترجمان آئی اے رحمٰن کا کہنا تھا متعدد علاقوں میں اخبارات پر پابندی ہے اورا س حوالے سے کوئی با ت کرنے کو بھی تیار نہیں کہ ڈان، دی نیوز اور جنگ اخبار پر کس نے پابندی لگائی۔

یہ بھی پڑھیں: میڈیا کی آزادی محدود کرنے کی کوششوں پر سی پی این ای کا اظہار تشویش

ان کا کہنا تھا کہ ایچ آر سی پی نے کتابوں کی دکانوں کے کئی مالکان سے، اخبارات کے اسٹالز مالکان اور ہاکرز نے اس مسئلے پر بات کی جنہوں نے تصدیق کی کہ یہ شکایات درست ہیں لیکن خوف کی وجہ سے کسی نے بھی پسِ پردہ کارفرما وجوہات نہیں بتائیں۔

آئی اے رحمٰن کا مزید کہنا تھا کہ کچھ عناصر کی ایما پر صحافتی تنظیموں کو منقسم کیا جاچکا ہے اور کچھ صحافیوں کے خلاف سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر منفی مہم جاری ہے۔

عوامی نیشنل پارٹی کے سابق سینیٹر افراسیاب خٹک، جنہوں نے اس رپورٹ پر کام کیا، کا کہنا تھا کہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ان لوگوں کا ساتھ دیں جو اس کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں کیوں کہ آزاد میڈیا کے بغیر جمہوریت کی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔

مزید پڑھیں: عالمی تنظیم کا عمران خان سے صحافت پر قدغن لگانے کی کوششوں کی روک تھام کا مطالبہ

ان کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی ادارے اپنی اجارہ داری چاہتے ہیں لیکن اپنا احتساب نہیں چاہتے، ان کا مزید کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں نے لوگوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھانا بند کردی ہے جس کی وجہ سے پشتون تحفظ موومنٹ سامنے آئی۔

سابق سنیٹر فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ صحافیوں تک براہِ راست رابطہ کرنے کے بجائے خبریں رکوانے کے لیے ادارے کے مالکان سے رابطہ کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے صحافی از خود سینسر شپ پر مجبور ہیں۔

سینئر صحافی محمد ضیاءالدین کا کہنا تھا کہ حیرت کی بات یہ ہے کہ کسی نے بھی اخبارات کی ترسیل اور ٹی وی چینل کی بندش کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔

یہ بھی پڑھیں: آئی پی آئی کا سرکاری میڈیا سے سیاسی سینسر شپ کے خاتمے کا خیر مقدم

ان کا مزید کہنا تھا کہ ماضی میں اس طرح کے اقدامات پر حکومت اور ذرائع ابلاغ کے درمیان مذاکرات ہوتے تھے لیکن حالیہ واقعات میں خود حکومت بھی بے بس نظر آرہی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں