واحد خاتون ڈائریکٹر کی فلم پیش کرنے پر وینس فلم فیسٹیول انتظامیہ پر تنقید

اپ ڈیٹ 30 اگست 2018
پرتگال کی ماڈل سارا سمپایو وینس ریڈ کارپٹ پر جلوے بکھیرتے ہوئے—فوٹو: اے ایف پی
پرتگال کی ماڈل سارا سمپایو وینس ریڈ کارپٹ پر جلوے بکھیرتے ہوئے—فوٹو: اے ایف پی

دنیا کے سب سے بڑے فلمی میلے کا اعزاز تو فرانس میں ہی ہونے والے ‘کانز’ کو حاصل ہے، تاہم اسی ملک میں ہی ہونے والے ‘وینس فلم فیسٹیول’ کو دنیا کے قدیم ترین فلمی میلے کا اعزاز حاصل ہے۔

‘وینس فلم فیسٹیول’ فلم ہر سال اگست اور ستمبر میں منعقد ہوتا ہے، رواں برس میلے کا انعقاد 29 اگست سے 8 ستمبر تک کیا گیا۔

دنیا کے اس قدیم ترین میلے میں رواں برس دنیا کے متعدد ممالک کی مجموعی طور 247 فلمیں نمائش کے لیے پیش کی جائیں گی۔ ان میں سے بیشتر فلمیں دستاویزی، بیشتر شارٹ جب کہ بیشتر فیچر فلمیں ہیں۔

یہ فلمیں دنیا کی متعدد زبانوں میں بنائی گئی ہیں، تاہم انہیں انگریزی سب ٹائٹلز کے ساتھ پیش کیا جائے گا۔

خبر رساں ادارے ‘اے ایف پی’ کے مطابق دنیا کے قدیم ترین اس فلم فیسٹیول میں اس بار صرف ایک خاتون فلم ساز کی فلم کو نمائش کے لیے پیش کیا جائے گا، جس وجہ سے فلم انتظامیہ پر کڑی تنقید کی جا رہی ہے۔

رپورٹ کے مطابق اگرچہ فلم میں خواتین کے مرکزی کرداروں پر مبنی فلموں سمیت امریکی گلوکارہ لیڈی گاگا کی پہلی فلم ‘اے اسٹار از بار’ بھی نمائش کے لیے پیش کی جائے گی۔

تاہم فیسٹیول میں صرف ایک خاتون ڈائریکٹر کی فلم کو نمائش کے لیے پیش کیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: وینس فلم فیسٹیول میں اداکاراؤں کے جلوے

گزشتہ برس بھی وینس فلم فیسٹیول کے اعلیٰ ایوارڈ ‘گولڈن لائن ٹاپ’ کے لیے 21 فلموں میں صرف ایک خاتون فلم ساز کی فلم کو شامل کیا گیا تھا۔

البرٹو باربرا اس بار جیوری کے سربراہ کی ذمہ داریاں نبھائیں گے—فائل فوٹو: زمبو
البرٹو باربرا اس بار جیوری کے سربراہ کی ذمہ داریاں نبھائیں گے—فائل فوٹو: زمبو

وینس فلم فیسٹیول میں نہ صرف گزشتہ 2 سال بلکہ متعدد سالوں سے خواتین فلم سازوں کو نمائندگی کم دی جا رہی ہے۔

وینس فلم فیسٹیول کا اعلیٰ فلمی ایوارڈ 43 سال قبل ایک جرمن فلم ساز خاتون نے جیتا تھا، اس کے بعد اس فیسٹیول کے تمام ایوارڈز ہر سال مرد ڈائریکٹرز جیتتے آ رہے ہیں۔

رواں برس وینس فلم فیسٹیول کے ڈائریکٹر کی خدمات سر انجام دینے والے اٹلی کے اداکار 68 سالہ البرٹو باربرا نے فیسٹیول شروع ہونے سے قبل اعلان کیا تھا کہ کانز، ٹورنٹو اور لوکارنو فلم فیسٹیول میں خواتین کی نمائندگی بڑھائے جانے کے بعد وہ وینس فلم فیسٹیول میں صنفی مساوات کے حوالے سے کام کریں گے، تاہم ایسا نہیں ہوسکا۔

فلم فیسٹیول میں صرف ایک خاتون فلم ساز کی فلم کو نمائش کے لیے منتخب کیے جانے پر انتظامیہ کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، ساتھ ہی البرٹو بابرا نے بھی وینس فلم فیسٹٰیول میں جنسی تفریق کو تسلیم کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ صنفی تفریق کے خاتمے کے لیے کردار ادا کریں گے۔

مزید پڑھیں: کانز میں اداکاراؤں و خواتین فلم پروڈیوسرز کا منفرد احتجاج

خیال رہے کہ وینس فلم فیسٹیول سے قبل رواں برس مئی میں ہونے والے کانز فلم فیسٹیول میں بھی خواتین فلم سازوں و اداکاراؤں نے احتجاج کیا تھا۔

خواتین کے مطابق کانز میں خواتین کو نمائندگی کم دی جاتی ہے، جب کہ اس دوران آئندہ 2 برس تک تمام فلم فیسٹیول میں خواتین کو ہر طرح کی پچاس فیصد نمائندگی دیے جانے کے حوالے سے مہم کا آغاز بھی کیا تھا۔

خواتین فلم سازوں و اداکاراؤں نے 50/50 نامی مہم کا آغاز کیا، جس کے تحت تمام فلم فیسٹیول انتظامیہ سے مطالبہ کیا گیا کہ 2020 تک ہر فیسٹیول میں خواتین کو تمام شعبوں میں 50 فیصد نمائندگی دی جائے۔

تبصرے (0) بند ہیں