اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے کے عنقریب سبکدوش ہونے والے سربراہ زید رعد الحسین کا کہنا ہے کہ میانمار کی رہنما آنگ سان سوچی کو گزشتہ برس ہی روہنگیا مسلمانوں کے خلاف فوجی مہم پر مستعفیٰ ہوجانا چاہیے تھا۔

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے زید رعد الحسین نے کہا کہ روہنگیا تنازع کے جنم لینے پر نوبیل انعام یافتہ آنگ سان سوچی کو ایک بار پھر نظر بند ہوجانا چاہیے تھا نہ کہ وہ فوج کی کارروائیوں سے متعلق مختلف بہانے پیش کریں۔

انہوں نے کہا کہ 'وہ کچھ کرنے کی پوزیشن میں تھیں، وہ خاموشی اختیار کر سکتی تھیں بلکہ سب سے بہتر یہ تھا کہ وہ استعفیٰ دے دیتیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’آنگ سان سوچی کو برمی فوجی کی ترجمان بننے کی کوئی ضرورت نہیں تھی، انہیں ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا کہ تمام معلومات غلط اور جھوٹ پر مبنی ہیں۔'

زید رعد الحسین نے کہا کہ ’وہ کہہ سکتی تھیں کہ آپ جانتے ہیں کہ میں ملک کی نامزد رہنما بننا چاہتی ہوں، لیکن ان حالات میں نہیں۔‘

مزید پڑھیں: ’مسلمانوں کی نسل کشی پرمیانمار فوج کے خلاف مقدمات قائم کیے جائیں‘

انہوں نے کہا کہ وہ کہہ سکتی تھیں ’آپ کا بہت بہت شکریہ، میں استعفیٰ دے دوں گی، میں دوبارہ گھر میں نظر بند ہوجاؤں گی، میں ایک ہتھیار نہیں بن سکتی کہ جب اس تشدد کی بات آئے تو یہ سمجھا جائے کہ میں اس کے ساتھ ہوں۔‘

واضح رہے کہ آنگ سان سوچی نے 1989 سے 2010 تک میانمار میں فوجی حکومت کے دوران تقریباً 16 سال گھر میں نظر بند ہوکر گزارے۔

اس پر دہائیوں تک انہیں انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے ہیروئن قرار دیا جاتا رہا۔

بدھ کو نوبیل کمیٹی نے کہا کہ آنگ سان سوچی سے امن کا نوبیل پرائزنہیں لیا جاسکتا کیونکہ انہیں 1991 میں اعزاز دیا گیا تھا۔

چند روز قبل جاری ہونے والی اقوام متحدہ کی رپورٹ میں میانمار کی فوج کو روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کا مجرم قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف مقدمات قائم کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: آنگ سان سوچی سے نوبل انعام واپس لینا ممکن؟

رپورٹ شائع ہونے کے بعد میانمار کی حکومت نے اسے یک طرفہ قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا تھا جبکہ روہنگیا رہنماؤں نے اقوام متحدہ سے میانمار کی فوج کے خلاف ٹرائل کا مطالبہ کیا تھا۔

واضح رہے کہ میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف کریک ڈاؤن کے باعث اگست 2017 سے اب تک سات لاکھ سے زائد روہنگیا افراد نقل مکانی کر کے بنگلہ دیش جا چکے ہیں، جبکہ اس عرصے میں ہزاروں افراد کو قتل بھی کیا گیا ہے۔

رواں سال اپریل میں میانمار کی حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے رخائن میں ظالمانہ فوجی کارروائی کا شکار ہونے والے 7 لاکھ روہنگیا مہاجرین کے ایک خاندان کو ملک میں واپس بلا لیا ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس اقدام کو مشکوک قرار دیا تھا۔

آنگ سان سوچی نے کیا کہا؟

اپریل 2017 میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا ’مجھے نہیں لگتا کہ کوئی نسل کشی کی جارہی ہے، میرا خیال ہے جو کچھ ہو رہا ہے اس کے اظہار کے لیے نسل کشی کا لفظ بہت زیادہ ہے۔‘

اگست 2017 میں شروع ہونے والے تشدد کے بعد آنگ سان سوچی نے کئی مواقع پرعوامی سطح پر اس مسئلے سے متعلق بات نہیں کی، جن میں گذشتہ برس ستمبر میں اقوامِ متحدہ کے جنرل اسمبلی کا اجلاس بھی شامل ہے۔

آنگ سان سوچی کو روہنگیا مسلمانوں پر کیے جانے والے میانمار فوج کے مبینہ مظالم کی مذمت کے لیے عالمی دباؤ کا سامنا بھی رہا۔

بعد ازاں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ غلط معلومات کے ذریعے بحران کی غلط تصویر پیش کی جارہی ہے، لیکن انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ اس تنازع کا شکار ہونے والے افراد کی مشکلات کے لیے فکرمند ہیں۔

انہوں نے کہا تھا کہ ’رخائن میں موجود تمام برادریوں کے مستقل حل کے لیے پُرعزم ہیں۔‘

2015 میں ہونے والے انتخابات میں سوچی کی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی پارٹی کی جیت کے بعد وہ ملک کی رہنما بنیں تھیں۔

اس وقت بھی روہنگیا بحران جاری تھا، اس وقت آنگ سان سوچی کے بیان سے یہ ظاہر ہوا تھا کہ لوگ تشدد کی شدت کو بڑھا کر بتارہے ہیں۔

مزید پڑھیں: 'کسی نےنہیں بتایا، انٹرویو کوئی مسلمان لے گا'

2012 میں جب میانمار میں تشدد کا آغاز ہوا اور تقریباً ایک لاکھ روہنگیا افراد کو نقل مکانی پر مجبور کیا گیا اس وقت آنگ سان سوچی نے عالمی برادری کو یقین دلایا تھا کہ ’انسانی حقوق اور جمہوری قوانین کی پاسداری کریں گے۔‘

اس وقت انہوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا لیکن بدھ مت بھی اس تشدد کا شکار ہوئے ہیں، یہ خوف ہی ہے جو مشکلات پیدا کررہا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ 'حکومت کا کام ہے کہ وہ تشدد کو ختم کرے، یہ ایک آمر حکومت کے زیر تسلط رہنے کے نتائج ہیں جو ہم بھگت رہے ہیں۔‘

تبصرے (0) بند ہیں