منشور کا لفظ سنتے ہی ہمارا ذہن انتخابات کی طرف چلا جاتا ہے، آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ابھی تو انتخابات کا غلغلہ ختم ہوا ہے، مگر یہ منشور کا قصہ کہاں سے آن موجود ہوا؟ تو جناب، دراصل منشور پر بات کرنے کا صحیح معنوں میں وقت تو اب ہی شروع ہوا ہے، کیونکہ اب ان باتوں اور وعدوں پر عمل کا وقت ہے جو ہم سے انتخابی مہم کے دوران کیے گئے تھے۔

انتخابات سے قبل سیاسی جماعتیں اور امیدوار انتخابی میدان میں اترتے ہیں اور عوام کو بتاتے ہیں کہ وہ انتخاب جیت کر اُن کے لیے کیا کرنا چاہتے ہیں۔ ہماری بدقسمتی کہیے کہ ہم ایک ایسے لولے لنگڑے جمہوری نظام میں رہتے ہیں کہ جہاں انتخابات میں منشور کو فقط خانہ پُری کی حیثیت حاصل ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں نے غیر محسوس طریقے سے ’منشور‘ پر بات نہ کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے، کیونکہ انتخابی مہم کے دوران ’منشور‘ کا ذکر شاذونادر ہی سنائی دیتا ہے۔ سارا زور الزامات، طعنوں، دشنام طرازیوں اور رکیک حملوں کے جلو میں عجیب و غریب نعروں کے ساتھ یہ مہم تمام ہوجاتی ہے، بہت سی باتیں اتنی انتقامی رنگ میں کی جاتی ہیں گویا انتخابات کا مقصد ہی صرف ایک دوسرے سے ’بدلے‘ لینا ہو۔

پڑھیے: وہ 46ء اور 70ء والے انتخابی منشور کہاں گئے؟

شاید ہماری انتخابی سیاست منشور اور دعوؤں میں زیادہ فرق بھی نہیں رکھتی، اس لیے فقط بلند و بانگ دعوؤں پر ہی انتخابی اکھاڑے میں مقابلہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ رہی بات رائے دہندگان کی، تو آپ نے شاید ہی کوئی ایسا فرد دیکھا ہو جس نے اپنے ووٹ کا فیصلہ خالصتاً منشور کی بنیاد پر کیا ہو جبکہ دنیا بھر میں ’منشور‘ سے آگاہ ہوئے بغیر ووٹ دینے کا تصور نہیں۔

بدقسمتی سے ہمارے ہاں زیادہ تر ووٹ شخصی پسند، ذاتی، فکری، مسلکی، لسانی اور سیاسی تعصب کی بنیاد پر دیا جاتا ہے۔ اگر ووٹ دینے والے اپنے امیدوار سے پچھلی کارکردگی اور نئے منشور کی بنیاد پر بات کرنے لگیں تو سیاسی جماعتیں بھی منشور کو وہ اہمیت دیں گی جو انتخابی سیاست میں دی جانی چاہیے۔

بہرحال، اب ہماری نومنتخب پارلیمان نے اپنا وزیرِاعظم بھی چُن لیا ہے اور نئی اسمبلی اپنی سرگرمیاں شروع کرچکی ہے، لہٰذا ہمارے نومنتخب ارکان پر یہ منشور ایک قرض کی طرح ہے جو اسے اگلے 5 سال کے دوران اتارنا ہے۔ ایک آزاد امیدوار سے لے کر بھاری تعداد میں اپنے اراکین کو اسمبلیوں میں بھیجنے والی سیاسی جماعتوں تک، چاہے حزبِ اقتدار میں ہوں یا حزبِ اختلاف میں، ان کے لیے لازم ہے کہ وہ پارلیمان میں اپنا ہر ہر لمحہ اپنے اُس منشور کے تابع گزاریں، جس کی بنیاد پر انہوں نے انتخابات میں حصہ لیا۔

انتخابی منشور کو فقط اقتدار ملنے سے مشروط نہیں رکھنا چاہیے۔ حزبِ اختلاف میں رہتے ہوئے بھی اپنے منشور پر عمل پیرا ہوا جاسکتا ہے۔ کچھ امور کی انجام دہی کا تعلق ضرور حزبِ اقتدار میں شمولیت سے ہوتا ہے، اس میں بے شک رعایت لے لیں، لیکن اقتدار نہ ملنے کو بنیاد بنا کر پورا منشور ہی فراموش کردینا ناانصافی ہے۔ ووٹ دینے والوں کو بھی تقاضا کرنا چاہیے کہ اپنے منتخب رکن سے منشور پر بازپرس کرے۔

نومنتخب قومی اسمبلی کی 3 بڑی جماعتوں کے منشور کے اہم نکات کا جائزہ لیں تو اس میں چند ایک کے سوا تمام امور عوامی فلاح و بہبود کے ہیں، جس کی مخالفت کسی ذی شعور رکن پارلیمان کی جانب سے نہیں کی جانی چاہیے۔ جیسے پانی کا بحران حل کرنے کے لیے فوری طور پر ڈیموں کی تعمیر، تعلیم اور صحت کے شعبے کی بہتری، بے روزگاری کا خاتمہ اور توانائی کے مسائل وغیرہ۔ کیا ہی اچھا ہو کہ پہلے مرحلے میں تینوں جماعتیں ایسے مشترکہ نکات پر مرکوز ہوجائیں، مگر اس کے لیے منشور کی یاد دہانی ضروری ہے!

پڑھیے: سیاسی جماعتوں کے انتخابی منشور کے 5 اہم نکات

پاکستان تحریک انصاف

قومی اسمبلی کی سب سے بڑی جماعت تحریکِ انصاف نے اپنے منشور میں جنوبی پنجاب صوبے کے قیام اور فاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام کا وعدہ کیا ہے، اتفاق سے پیپلز پارٹی کے منشور میں بھی یہ نکتے شامل ہیں۔ تحریکِ انصاف کی جامعات اور ووکیشنل ٹریننگ سینٹر جیسی تجاویز مسلم لیگ (ن) کے منشور کا بھی حصہ ہیں۔ ان کے دیگر نمایاں نکات میں ایک کروڑ نئی ملازمتیں، 50 لاکھ گھر اور 10 ارب درخت لگانا شامل ہے۔ یہ ایک یا 2 سال کا کام نہیں، اب حزبِ اختلاف کا فرض ہے کہ وہ پورے 5 برس حکومت سے اس بابت استفسار کرے۔ غیر سیاسی پولیس، لائیو اسٹاک میں بہتری اور بلدیاتی اداروں کی خود مختاری بھی منشور کے نمایاں نکات ہیں۔

مسلم لیگ (ن)

نواز لیگ کے منشور میں ’ووٹ کو عزت دو‘ کا نعرہ سرِفہرست تھا، اِسے اقتدار نہ مل سکا لیکن یہ قومی اسمبلی کی دوسری بڑی جماعت ہے۔ اس نے اپنے منشور میں پنجاب کی طرح چھٹی جماعت سے بچیوں کو ایک ہزار روپے وظیفہ دینے کا نظام ملک بھر میں نافذ کرنے کا اعلان کیا۔ پچھلے 5 برس میں (ن) لیگ نے پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے تحت 10 لاکھ بچوں کو داخلہ دیا، اسی طرح 20 لاکھ بے روزگار افراد کو قرض فراہم کیے گئے اور اپنے منشور میں اسے ملک بھر میں پھیلانے کا وعدہ کیا۔ اگرچہ اسے اقتدار حاصل نہیں ہوا لیکن اُسے چاہیے کہ حزبِ اختلاف میں رہتے ہوئے وہ اس منصوبے کو پھیلانے کے لیے کوشش کرے۔

پاکستان پیپلز پارٹی

قومی اسمبلی کی تیسری بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنے منشور میں طلبہ یونین اور ٹریڈ یونین پر سے پابندی ہٹانے کا اعلان کیا۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ ان پابندیوں کو پیپلز پارٹی نے اپنے 5 سالہ اقتدار میں عملی جامہ کیوں نہیں پہنایا۔ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے انتخابات ایک ساتھ کرانے کا اعلان کیا، جبکہ گلگت بلتستان کو صوبائی درجہ پیپلز پارٹی کے دور میں ہی دیا گیا اور الگ انتخابات بھی کرائے گئے۔ پیپلز پارٹی کے منشور کا بھوک مٹاؤ پروگرام کا نکتہ تو ایسا ہے کہ کوئی بھی رکن اسمبلی اس سے انکار نہیں کرسکے گا۔ بس ضرورت اسے یاد رکھنے اور اس کے لیے عملی اقدام کی ہے۔ پیپلز پارٹی نے اپنے منشور میں معیاری جمہوریت اور پارلیمان کی خود مختاری کی بات کی ہے جو نواز لیگ کے منشور سے بھی زیادہ قریب معلوم ہوتی ہے اور یقیناً دیگر بھی اس سے پیچھے نہیں رہیں گے۔

یہ ایک یاد دہانی ہے ووٹ لینے اور دینے والوں کے لیے کہ وہ یہ جان لیں کہ منشور کا تعلق انتخابات کے بعد ختم نہیں دراصل شروع ہوتا ہے اور اسمبلی کے آخری دن تک باقی رہتا ہے تاکہ اگلی مرتبہ اسی منشور کو سامنے رکھتے ہوئے کسی بھی امیدوار یا جماعت کی کارکردگی کا تعین کیا جائے۔

یہ وہ کلیہ قرار پائے، جس کو بنیاد بنا کر ہر سیاسی جماعت و امیدوار بتائے کہ 5 برس اُس نے اپنے منشور اور وعدوں پر کس قدر عمل کیا؟ اگر ہمارے تجزیہ کاروں سے لے کر ذرائع ابلاغ اگر ووٹروں کو اس سمت میں راغب کرنے میں کام یاب ہو جائیں تو یقیناً یہ عمل ہمارے انتخابی عمل پر بہت مفید اثرات مرتب کرے گا اور لوگ ’کم بُرے‘ امیدوار کو چننے کے بجائے ’بہتر سے بہتر‘ امیدوار کو پارلیمان میں بھیجیں گے۔

ایسا ہوا تو پھر سیاسی جماعتیں بھی روایتی جوڑ توڑ، نعروں اور نفرت کی سیاست سے نکل کر پختہ بنیادوں پر داخلی سیاست، خارجہ حکمت عملی، تعلیم و صحت، توانائی اور دیگر مسائل پر بہتر سے بہتر طریقے سے اپنی رائے اور منصوبے دے سکیں گی۔

لیکن یہ سب اُسی وقت ممکن ہوسکتا ہے کہ جب لوگوں میں سیاسی جماعتوں، منتخب نمائندوں اور امیدواروں سے ان کے منشور پر بات کرنے کا شعور پیدا ہوجائے۔ ساتھ ہی وہ منشور کی بنیاد پر ہی اپنے نمائندوں کو ’رد‘ یا ’قبول‘ کرنے لگیں، بہ صورت دیگر ہمارے اگلے 5 برس بھی اسی طرح الزام تراشیوں اور تنازعات کی بازگشت میں گزر جائیں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں