چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کا کہنا ہے کہ بیرون ملک رقم کی واپسی کے حوالے سے اداروں کی پیش رفت پر مطمئن نہیں اور اپنے اثاثے ظاہر نہ کرنے والوں پرمنی لانڈرنگ کا کیس بنتا ہے۔

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں پاکستانیوں کی بیرون ملک جائیدادوں سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت ہوئی۔

سماعت کے دوران گورنر اسٹیٹ بینک طارق باجوہ نے عدالت کو بتایا کہ لندن کی انتظامیہ نے 2 سو 25 لوگوں کی جائیدادوں کی معلومات فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو بھجوائی ہیں۔

کیس میں عدالتی معاون شبر زیدی نے بتایا کہ ایف بی آر نے 300 افراد کو بیرون ملک جائیدادوں پر نوٹس جاری کیے ہیں، جبکہ زیادہ رقم حوالے کے ذریعے بیرون ملک منتقل ہوئی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ بیرون رقم کی واپسی کے حوالے سے پیش رفت پر مطمئن نہیں، ایمنسٹی اسکیم کے باوجود رقم اور جائیدادیں باہر پڑی ہیں۔

مزید پڑھیں: برطانیہ، دبئی میں جائیداد بنانے والے 15 سو پاکستانیوں کو نوٹس بھیجنے کا فیصلہ

گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ دبئی اتھارٹی سے کہیں گے جائیدادیں نہ ماننے والوں کے خلاف بے نامی قانون کے تحت کارروائی کریں، جبکہ جنہوں نے جائیدادیں مان لیں ان سے ذرائع طلب کریں گے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ کیا یہ وہ لوگ ہیں جو پاکستان میں رہتے ہیں اور باہر جائیداد بناتے ہیں؟

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ کی کمیٹی کے ٹرمز آف ریفرنس (ٹی او آر) سادہ ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جو پیسہ چوری کرکے باہر لے گئے ہیں۔

جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ ہم نے اس معاملے پر 5 ماہ پہلے ازخود نوٹس لیا لیکن پیش رفت سست ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ایمنسٹی اسکیم میں 2 فیصد ٹیکس رکھا گیا جو بہت کم تھا، انڈونیشیا نے 17 فیصد ٹیکس رکھا وہاں یہ اسکیم کامیاب ہوئی، جبکہ رپورٹ کے مطابق ایمنسٹی اسکیم سے لگ بھگ 8 ارب ڈالر کی جائیداد ظاہر کی گئی ہے۔

جسٹس ثاقب نثار نے طارق باجوہ سے مکالمہ کیا کہ گورنر اسٹیٹ بینک، تمام لوگ موجود ہیں، 100 افراد کے نام دیں باقی کام ہم کرلیں گے، ایف بی آر سے بڑھ کر عدلیہ پاکستان کی اسٹیٹ ہے، اپنے اثاثے ظاہر نہ کرنے والوں پر منی لانڈرنگ کا کیس بنتا ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ جنہوں نے نہ صرف یہاں بلکہ باہر اثاثے چھپائے انہیں سزا دی جانی چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: ایف بی آر پاکستانیوں کے بیرونِ ملک اکاؤنٹس تک رسائی کیلئے تیار

اس موقع پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ عدالتی احکامات پر 28 اگست کو نوٹی فکیشن جاری ہوا اور ٹاسک فورس بنادی گئی جس میں ایف آئی اے، نیب، ایس ای سی پی اور وزارت خزانہ کے حکام شامل ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی نیت ہے قانون بنایا جائے جس سے غیر ممالک میں پڑی دولت واپس لائی جاسکے، حکومت عوام کے مفاد کو عدالت کی نگرانی میں خود دیکھنا چاہتی ہے، ہنڈی اور حوالہ کے امور پر آج وزیر اعظم کو بریفنگ دی جارہی ہے اس لیے عدالت کوئی حکم جاری کرنے سے پہلے اسے دیکھ لے۔

عدالت نے ہدایت دی کہ جنہیں نوٹسز جاری کیے گئے ان کی فہرست سربمہر لفافے میں پیش کی جائے اور اگر یہ نام افشا ہوئے تو ایف بی آر اور رجسٹرار سپریم کورٹ ذمہ دار ہوں گے۔

بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت 5 ستمبر تک ملتوی کر دی۔

پاکستانیوں کی صرف دبئی میں 110 ارب روپے کی جائیدادیں

علاوہ ازیں ایف آئی اے نے سپریم کورٹ میں رپورٹ جمع کروادی جس میں بتایا گیا کہ مجموعی طور پرایک سو 10 ارب روپے مالیت کی 27سو 50 پاکستانیوں کی دبئی میں جائیدادوں کی تفصیلات حاصل کرلی گئی ہیں۔

دبئی لینڈ ڈپارٹمنٹ سے ریکارڈ کی تفصیلات درکار ہیں.

بیرون ملک جائیدادیں رکھنے والوں کے خلاف ایف آئی اے اب تک 54 فوجداری انکوائریاں درج کرچکا ہے.

رپورٹ کے مطابق دبئی لینڈ ڈپارٹمنٹ کا ریکارڈ نہ ملنے کے باعث تحقیقات تعطل کا شکار ہیں.

6 سو 62 پاکستانیوں کی دبئی میں جائیدادیں فرسٹ سورس ریکارڈ کے تحت پتہ چلیں، 14 سو 67 جائیدادیں سائبر انٹیلی جنس رپورٹ کی بنیاد پر سامنے آئیں.

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دبئی میں پاکستانیوں کی جائیدادوں کی ریکوری کیلئے باہمی قانونی تعاون کی درخواست کرنا ہوگی.

برطانوی حکومت نے نائجیریا اور روس کے ساتھ پاکستان کو تین بڑے منی لانڈرنگ سورس کا ملک قرار دیا ہے.

رپورٹ میں گورنر اسٹیٹ بینک کو سفارش کی گئی ہے کہ بیرون ملک پاکستانیوں کے اثاثے واپس لانے والی کمیٹی کا دائرہ اختیار بیرونی ملک اثاثوں اور تخمینے تک بڑھایا جائے.

رپورٹ میں تجویز دی گئی ہےکہ پاکستانی دولت کو واپس لانے والی کمیٹی کا دائرہ اختیار عالمی قانون کے تحت باہمی معلومات تک بڑھایا جائے.

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں