اسلام آباد: صدارتی انتخاب میں شکست کے بعد اپوزیشن جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور پاکستان مسلم لیگ (ن) نے اپنی حکمتِ عملی پر نظر ثانی کرنے کے بجائے ایک دوسرے پر تنقید کے نشتر چلانے شروع کردیئے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق صدارتی انتخاب کے موقع پر ایک دوسرے پر الزامات کا سلسلہ ووٹ دینے کے لیے اراکین کی پارلیمان میں آمد سے شروع ہوا اور الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کی جانب سے غیر سرکاری نتائج کے بعد بھی جاری رہا۔

اس موقع پر مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سیکریٹری اطلاعات سینیٹر مشاہداللہ خان کی جانب سے پی پی پی پر ان الفاظ میں تنقید کی گئی کہ ’آصف علی زرداری اور اسٹیبلشنٹ کے رومان کا آغاز بلوچستان کے پتھریلے اور بنجر پہاڑوں سے اس وقت ہوا جب انہوں نے سینیٹ انتخابات سے قبل صوبے میں ہماری حکومت گرانے میں اہم کردار ادا کیا اور یہ اب اسلام آباد کی ذرخیز اور سرسبز و شاداب پہاڑیوں تک جاپہنچا ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں: اپوزیشن میں صدارتی اُمیدوار کیلئے اختلافات برقرار

ان کا کہنا تھا کہ آصف زرداری نے نہ صرف جمہوریت کو نقصان پہنچایا بلکہ اس سے پیپلز پارٹی کو بھی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ پیپلز پارٹی نے پہلے وزیر اعظم کے انتخاب کے دوران شہباز شریف کو ووٹ نہ دے کر اور بعد ازاں انفرادی طور پر اعتزاز احسن کو صدارتی امیدوار نامزد کر کے مشترکہ اپوزیشن کو دھوکا دیا۔

مسلم لیگ (ن) کے ایک اور رہنما انجینئر امیر مقام کا کہنا تھا کہ صدارتی انتخاب میں کامیابی پر وزیر اعظم عمران خان اور نومنتخب صدر ڈاکٹر عارف علوی کو پیپلز پارٹی کا شکر گزار ہونا چاہیے۔

مزید پڑھیں: پیپلز پارٹی صدارتی امیدوار کیلئے اعتزاز احسن کے نام پر ڈٹ گئی

ان کا مزید کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی نے ایوانِ صدر پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کا کنٹرول یقینی بنانے کے لیے ’تاریخی‘ کردار ادا کیا، ساتھ ہی تحریک انصاف کو تجویز دی کہ پی پی پی نے اپنا کردار ادا کر دیا اب پی ٹی آئی کو بھی چاہیے کہ جذبہ خیر سگالی کے تحت پیپلز پارٹی کو فائدہ پہنچانے کے اقدامات کرے۔

اس بارے میں جب ایک صحافی نے آصف علی زرداری سے سوال کیا تو انہوں نے اپنی روایتی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا کہ ’وہ کہہ رہے ہیں کہ زرداری نے اپوزیشن کو تقسیم کیا، ہمیں یہ کیوں نہیں کہنا چاہیے کہ میاں شہباز شریف کبھی اپوزیشن میں تھے ہی نہیں‘۔

دوسری جانب اس بارے میں پیپلز پارٹی کی نائب صدر شیری رحمٰن کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت نے اپوزیشن میں اتحاد برقرار رکھنے کے لیے محنت کی، لیکن ہم اپنی جماعت کو جواب دہ ہیں اور ایک عالمی نقطہ نظر کے پابند ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: مولانا فضل الرحمٰن صدارتی انتخابات سے دستبردار نہیں ہوں گے، رانا تنویر

ادھر مسلم لیگ (ن) کے ایک سینئر رہنما نے صدارتی انتخاب میں شکست پر نہ صرف پیپلز پارٹی بلکہ خود اپنی جماعت کو بھی ذمہ دار ٹہرایا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ایک ناکارہ مزدور ہمیشہ اپنے اوزاروں کو ذمہ دار قرار دیتا ہے، نتائج پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہم جتنا قریب تھے اتنے ہی دور ہیں‘۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں