انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن میں سوراخ انسانی غلطی یا سازش؟

06 ستمبر 2018
انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن — فوٹو بشکریہ ناسا
انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن — فوٹو بشکریہ ناسا

1969 میں نیل آرم سٹرانگ کی چاند پر محدود چہل قدمی کے بعد سائنسدان شدت کے ساتھ ایک ایسے خلائی مرکز کی کمی محسوس کر رہے تھے جو نہ صرف خلا میں آسانی سے رسائی میں ہو بلکہ اسے طویل عرصے تک خلائی سرگرمیوں کے لیے استعمال کیا جا سکے۔

اسی لیے بین الاقوامی خلائی مرکز کے طویل المیعاد منصوبے کا باقاعدہ آغاز 1998 میں ہوا جس کے لیئے زمین سے فاصلے پر نچلے درجے کے مدار " لو ارتھ آربٹ"میں 248 میل ، یا چار سو کلومیٹر کی بلندی پر ایک جگہ منتخب کی گئی جسےزمین سے سادہ آنکھ سے دیکھنا ممکن ہے۔

15 ممالک کی نمائندہ 5 اسپیس ایجنسیاں جن میں امریکا کی "ناسا"، روس کی "روس کاسموس"، یورپین ممالک کی "ای ایس اے"، "کینیڈین سپیس ایجنسی" اور "جاپان ایرو سپیس ایجنسی" شامل تھیں، نے مشترکہ طور پر اس کی تعمیر شروع کی۔ ابتدائی طور پر اس کے مختلف حصوں، جس میں لیبارٹری، بھاری مشینری اور شمسی توانائی سے چلنے والے سولر پینلز شامل تھے، کو روس کی اسپیس شٹل کی مدد سے ایک ایک کر کے خلا میں لیجا کر آپس میں جوڑا گیا جبکہ اس کے بعد بھی وقتا ََ فوقتا ََ اس کی مرمت اور تبدیلیاں کی جاتی رہی ہیں۔ اور اب سولر پینلز سمیت اس کی کل جسامت ایک امریکی فٹبال کے میدان جتنی، جبکہ وزن تقریباً انتالیس ہزار کلو گرام ہے۔

بلاشبہ انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن انسانی تاریخ کا سب سے بڑا سائنسی و انجینئرنگ کا منصوبہ ہے جو دنیا بھر کے ماہرینِ فلکیات ، سائنسدانوں اور خلا بازوں کو ارضیات، فلکیات اور ماحولیات پر تحقیق کرنے کے لیے ایک مکمل پلیٹ فارم فراہم کرنے کے ساتھ ہر طرح کے جدید آلات سے پوری طرح لیس ہے اور اسی وجہ سے یہ دنیا بھر کی سائنسی خبروں کا مرکز بنا رہتا ہے۔

پچھلے ہفتے بین الاقوامی خلا ئی مرکز ایک دفعہ پھر سب کی توجہ کا مرکز بن گیا جب امریکی تحقیقاتی خلائی ادارے ناسا کی جانب سے یہ اس میں ایک سوراخ ہو جانے کا اعلان کیا گیا۔

اگرچہ اس سوراخ کے باعث خلائی مرکز اور اس میں فی الوقت موجود عملے کے 6 افراد کو کوئی نقصان نہیں پہنچا اور سوراخ کو ابتدائی طور پر ایک خاص قسم کے ٹیپ سے بھر دیا گیا ہے جو مرکز میں موجود خلا باز وں نے ضرورتاً اپنے پاس رکھا ہوا تھا۔ مگر یہ محض ایک عارضی حل ہے اور مکمل مرمت کے لیے خلائی مرکز کے عملے اور جانسن اسپیس سینٹر ہاسٹن کے درمیان مسلسل مشاورت جاری ہے۔

اگرچہ خلائی مرکز میں وقتاً فقتاً تبدیلیاں اور مرمت کی جاتی رہتی ہے اور روس اور امریکہ اسے 2022 تک فعال رکھنے پر آمادہ ہیں لیکن اس دفعہ اس معمولی سے سوراخ کی خبر اس لیے لوگوں کی توجہ کا مرکز بنی، کیونکہ ناسا کی جانب سے اس کی ایک تصویر ٹوئٹر پر شیئر کی گئی جسے بعد ازاں ناسا اسپیس فلائٹ کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ہٹا دیا گیا۔

تفصیلات کے مطابق 2 ملی میٹر کے قطر کے اس ننھے سے سوراخ سے ہوا لیک ہوکر خلائی اسٹیشن کے اندر مسلسل بھر رہی تھی اور اگر اسے فوری طور پر مناسب طریقے سے پُرا نہیں گیا تو اس کے باعث محض 18 دن میں پورا خلائی مرکز ہوا سے بھر سکتا ہے۔ یہ سوراخ خلائی مرکز کے جس حصے میں مشاہدہ کیا گیا وہ روس کی ملکیت ہے اس لیئے خلائی ایجنسی روس کاسموس نے اس واقعے کی تحقیقات کے لیے فوری طور پر ایک کمیشن قائم کیا ہے۔

اگرچہ ابتدا میں ایسا محسوس ہوا تھا کہ یہ سوراخ خلا میں آزادانہ پھرتے ہوئے کسی نوکیلے ننھے شہابیے کے خلائی مرکز سے ٹکرانے کے باعث پیدا ہوا جس کی تصدیق خلائی مرکز میں سب سے زیادہ قیام کرنے والے خلاباز سکاٹ کیلی نے بھی کی کہ شہابیوں کا خلائی مرکز سے ٹکرانا اور کچھ حصوں کو اس کے باعث نقصان پہنچ جانا ایک معمول کی بات ہے اور مرکز کے قیام سے بعد سے 20 سال میں ایسے لاتعداد واقعات ہو چکے ہیں اور خلائی مرکز کے شہابیوں کا اسپیس ڈیبریز سے ٹکرانے سے ہونے والے نقصان کی مرمت کے لیے خلابازوں کو باقاعدہ ٹریننگ بھی دی جاتی ہے۔

مگر چند روز گزر جانے کے بعد جو صورتحال سامنے آئی ہے اس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ سوراخ بیرونی عوامل کے بجائے کسی اندرونی شے کا کارنامہ تھا۔

واضح رہے جس حصے میں یہ سوراخ دیکھا گیا ہے وہ روسی ساختہ ہے اور روس کی راکٹ تیار کرنے والی کمپنی انرجیا راکٹ کا تیار کردہ ہے، لہذاٰ امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ یہ سوراخ جو دیکھنے میں ڈرل مشین سے کیے گئے ننھے سوراخوں کی طرح دکھائی دیتا ہے، یا تو اسے انرجیا راکٹ کے عملے کے کسی انجینئر سے یہ تیاری کے دوران غلطی سے ہوا مگر اس نے تحقیقات یا کسی اور ڈر سے اسے گلیو کے ذریعے چھپانے کی کوشش کی۔

ٹوئٹر فوٹوز
ٹوئٹر فوٹوز

یہ طریقہ اتنا مؤثر تھا کہ خلا میں بھیجے جانے سے پہلے جب اس کا مخصوص دباؤ پر تجزیہ کیا گیا تو تب بھی یہ سوراخ سامنے نہیں آسکا مگر خلا میں دو مہینے تک شدید ہوائی دباؤ کے باعث جلد ہی یہ گلیو سوکھ گیا اور اس مقام سے ہوا خلائی مرکز کے اندر داخل ہونے لگی، یا پھر کسی اور سنگین منصوبہ بندی کے باعث یہ سوراخ جان بوجھ کر کیا گیا تھا تا کہ خلائی مرکز کو نقصان پہنچایا جا سکے اور فی الوقت اس تنازع کی وجہ سے ہوسٹن اور ماسکو کے درمیان تعلقات کچھ کشیدہ نظر آرہے ہیں۔

لیکن ہوسٹن کے انجینئرز اور سائنسدانوں کی بھرپور توجہ اس مسئلے کے حل کی جانب مبذول ہے۔ کیونکہ یہ عمل اتنا آسان اور سادہ نہیں ہے۔

اگرچہ روس کی خلائی ایجنسی کی جانب سے اسے جلد ہی خاص گلیو کے ذریعے اسے بھرنے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے جس میں مخصوص انسولیشن والے عناصر شامل کیے جائیں گے لیکن ناسا کے خلا باز انڈریو فیوسٹل جو اس وقت بین الاقوامی خلائی مرکز کے انچارج کے طور پر ذمہ داریاں سر انجام دے رہے ہیں، اس حل سے زیادہ خوش نہیں ہیں کیونکہ ان کے خیال میں بعد ازاں خلا میں اس گلیو کے دیگر خواص سامنے آسکتے ہیں جس سے صورتحال مزید پیچیدہ ہوجانے کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا۔

اگرچہ عارضی حل سے سوراخ کو بھر دیا گیا ہے اور ابھی خلائی مرکز میں ہوا کا دباؤ معمول کے مطابق ہے مگر کوئی نہیں جانتا کہ سوراخ پر کرنے کے لیے جو ٹیپ استعمال کی گئی ہے وہ کتنا عرصہ کار گر ہوگی۔

اسی طرح روس کی جانب سے مخصوص گلیو کا جو حل پیش کیا جارہا ہے اس کے بارے میں بھی ابھی وثوق سے کچھ نہیں کہا جاسکتا اور ضرورت اس امر کی ہے کہ زمین پر موجود لیبارٹری میں انتہائی بلند دباؤ پر اس گلیو پر تجربات کر کے تجزیہ کیا جائے کہ آیا یہ دیرپا ثابت ہوگا اور خلا کے تبدیل شدہ ماحول میں اس کی کوئی منفی خصوصیات تو سامنے نہیں آئیں گی۔

یہ امر بھی زیر ِغور ہے کہ روسی ساختہ اس حصے کو خلائی مرکز سے علیحدہ کر کے زمین پر واپس بھیج دیا جائے اور پھر اکی مرمت مناسب تحقیق اور طریقۂ کار کے مطابق کی جائے۔

بہرحال یہ سوراخ چاہے انرجیا راکٹ کے انجینئرز کی غفلت کے باعث ہوا ہو یا جان بوجھ کر کیا گیا اس دو ملی میٹر کے سوراخ کی وجہ سے خلا میں انسان کا پہلا گھر اس وقت دنیا بھر کی سائنس کمیونٹی کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔

پچھلے برس دنیا کی پانچوں اسپیس ایجنسیز نے متفقہ طور پر اس عہد کی تجدید کی تھی کہ خلا کو تسخیر کرنے کی انسانی سرگرمیوں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون جاری رکھا جائے گا، لہذاٰ امید کی جارہی ہے کہ ماسکو اور ہوسٹن باہمی تعاون سے اس مسئلے کو حل کرلیں گے اور انرجیا راکٹ کے جو افراد اس کے ذمہ دار ہیں ان کی جلد شناخت کرکے انھیں سزا دی جائیگی اور 2024 تک بین الاقوامی خلائی مرکز اسی طرح کام کرتا رہے گا۔


صادقہ خان نے یونیورسٹی آف بلوچستان سے اپلائیڈ فزکس میں ماسٹرز کیا ہے، وہ پاکستان کی کئی سائنس سوسائٹیز کی فعال رکن ہیں۔ ڈان نیوز پر سائنس اور اسپیس بیسڈ ایسٹرا نامی کے آرٹیکلز/بلاگز لکھتی ہیں۔ ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں saadeqakhan@

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں