اسلام آباد: مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق وزیر مملکت طلال چوہدری نے توہین عدالت کیس میں اپنی نااہلی کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا۔

ایڈووکیٹ کامران مرتضیٰ کے ذریعے دائر کی گئی درخواست میں طلال چوہدری نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ استغاثہ کے مؤقف کو اہمیت دی گئی لیکن دفاع کے مؤقف کو نظر انداز کیا گیا جبکہ استغاثہ کے خلاف مواد کے باوجود درخواست گزار کو شک کا فائدہ نہیں دیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ الزام ثابت کیے بغیر سزا دے دی گئی اور شواہد کا درست انداز میں جائزہ نہیں لیا گیا جو قانون کی نظر میں درست نہیں، فیصلے کو کالعدم قرار دینے کے لیے بے قاعدگیاں اور خلاف قانون پہلو موجود ہے لہٰذا عدالت سے استدعا ہے کہ وہ سزا کے خلاف درخواست منظور کرکے فیصلہ کالعدم قرار دے۔

واضح رہے کہ 2 اگست کو سپریم کورٹ نے طلال چوہدری کو توہین عدالت کا مرتکب قرار دیتے ہوئے انہیں عدالت برخاست ہونے تک کی سزا سنائی تھی، جس کے ساتھ ہی وہ 5 سال کے لیے نااہل ہوگئے تھے۔

سپریم کورٹ میں جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے 11 جولائی کو طلال چوہدری کے خلاف توہین عدالت کا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: توہینِ عدالت کیس: طلال چوہدری پر فردِ جرم عائد

کیس کے تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ طلال چوہدری کی تقاریر توہین عدالت کے زمرے میں آتی ہیں اور یہ تقاریر آئین کے آرٹیکل 204 اور توہین عدالت آرڈینینس کے سیکشن 18 کے تحت قابل سزا ہیں۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ طلال چوہدری کے وکیل نے عدالت سے درگرز کرنے کی استدعا کی تھی اور عدالتی درگزر کی نظائر بھی پیش کیں جبکہ وکیل کی جانب سے فیصل رضا عابدی اورخادم حسین رضوی کی تقاریر کا حوالہ بھی دیا گیا۔

عدالت کے تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ ہر کیس کی نوعیت دوسرے سے مختلف ہوتی ہے، کچھ مقدمات پر صبر و تحمل کا مظاہرہ نہیں کیا جا سکتا، توہین آمیز الفاظ سپریم کورٹ کے 28 جولائی کے فیصلے کے تناظر میں ادا کیے گئے، عدالت کے خلاف توہین آمیز الفاظ سے عدالت کا وقار مجروح ہوا۔

فیصلے میں کہا گیا کہ عدالت کو اسکینڈلائز کیا گیا اور عدلیہ کا مذاق اڑایا گیا، طلال چوہدری آئین کے آرٹیکل 204 اور توہین عدالت کی سیکشن 3 کے تحت مجرم قرار پائے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں