پشاور: پروفیشنل کالجز میں داخلے کے لیے امتحانات میں اچھے نمبرز حاصل کرنے میں ناکامی کے باعث طلبا کی خودکشی کے واقعات بڑھنے کے باوجود بھی انتظامیہ کی جانب سے اس پر توجہ نہیں دی جارہی۔

میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے امتحانی نتائج آنے کے بعد کئی طلبا اپنے اساتذہ اور والدین کی امیدوں پر پورا نہ اترتے ہوئے اچھے نمبر حاصل نہیں کرپانے پر ناامید ہو کر خودکشی کر چکے ہیں۔

نتائج سے دلبرداشتہ ہو کر طلبا کی خودکشی کی خبریں ہر گھر میں موجود ایک سنگین مسئلے کی نشاندہی کر رہی ہیں۔

ضلع کرم قبیلہ میں پارا چنار کے گاؤں شین گاکھ کے رہائشی اور ایڈورڈز کالج میں بارہویں جماعت (پری انجینئرنگ) کے طالبعلم ذیشان نے امتحانی نتائج سے دلبرداشتہ ہو کر پشاور کے ایک نجی ہاسٹل میں خودکشی کرلی تھی۔

مقامی افراد کا کہنا تھا کہ وہ انٹرمیڈیٹ کے امتحانات میں اچھے نمبر حاصل کرنے میں ناکام ہوگیا تھا۔

مزید پڑھیں : چترال: امتحانی نتائج سے دلبرداشتہ 3 طلبا کی خود کشی

کوہسار پبلک اسکول کے پرنسپل محمد ہدایت خان نے کہا کہ ’ذیشان ہمارے اسکول کا طالبعلم تھا اور ہمیشہ کلاس میں اول آتا تھا، وہ ایک خاموش طبع لڑکا تھا۔‘

ذیشان کے پڑوسی ابرار حسین کا کہنا تھا کہ پورا گاؤں ذیشان کی موت پر افسردہ تھا کیونکہ وہ ایک اچھا طالبعلم تھا اور ہمیشہ کلاس میں اچھے نمبر حاصل کرتا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ مرحوم کے والد آسٹریلیا میں برسرِ روزگار تھے اور وہ اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑا تھا۔

تاہم ذیشان اپنی زندگی کے مشکل وقت میں سکون اور مشاورت حاصل نہیں کرسکا تھا، وہ انٹرمیڈیٹ کے نتائج میں کم نمبر حاصل کرنے پر دلبرداشتہ تھا اور اس نے اپنے والدین اور عزیز و اقارب سے دور ایک نجی ہوسٹل کے کمرے میں نیند کی گولیاں کھا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا تھا۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ کسی طالبعلم نے امتحانی نتائج سے مایوس ہو کر خودکشی کی ہے۔

گزشتہ ماہ انٹرمیڈیٹ کے نتائج کے اعلان کے بعد ضلع چترال میں چار طلبا نے خودکشی کی تھی، جن میں دو لڑکیاں بھی شامل تھیں جبکہ ایک طالبعلم نے امتحان میں فیل ہونے پر خود کو گولی مار کر شدید زخمی کرلیا تھا۔

والدین اور اساتذہ کی جانب سے ڈاکٹر اور انجینئر بننے کے لیے ڈالے جانے والا شدید ذہنی دباؤ اور اچھے نتائج کے لیے سخت مقابلے کی وجہ سے طلبا میں خودکشی کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے، لیکن اس مسئلے پر توجہ نہیں دی جارہی۔

ماہر نفسیات ڈاکٹر میاں افتخار حسین کا کہنا تھا کہ ’طلبا کم عمر اور ناتجربہ کار ہوتے ہیں، ان کی شخصیت مکمل نہیں ہوتی اس لیے امتحان میں کم نمبر حاصل کرنے کے ردعمل میں پیدا ہونے والا شدید ذہنی دباؤ انہیں خودکشی پر مجبور کرتا ہے۔‘

یہ بھی پڑھیں: چترال میں امتحانی نتائج سے دلبرداشتہ ایک اور طالبعلم کی خودکشی

انہوں نے طلبا کے لیے مشاروتی سہولت فراہم کرنے کی تجویز دیتے ہوئے کہا کہ اسکولوں اور کالجوں میں ایسے کاؤنسلر یا تربیت یافتہ اساتذہ ہونے چاہیے کہ اگر کوئی طالبعلم ایک مخصوص رویہ اپنائے ہوئے ہے تو وہ ان علامات کو تشخیص کرکے ان کی رہنمائی کریں، تاکہ مستقبل میں اس کی ذہنی بیماری یا زندگی کے خاتمے کی وجہ نہ بن سکے۔

ڈاکٹر افتخار حسین کا کہنا ہے کہ خودکشی کی کئی وجوہات اور علامات ہوتی ہیں، لیکن ان کیسز میں امتحانات میں اچھے نمبرز حاصل نہ کرنا طلبا کی خودکشی کی واضح وجہ ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ نوجوان اضطراب میں مبتلا رہتے ہیں اور ناکامی یا مایوسی کو برداشت نہیں کر پاتے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ والدین کی جانب سے ڈانٹ یا اپنی ناکامی پر افسوس کا ایک جذباتی ردعمل ہے۔‘

ڈاکٹر افتخار حسین نے 14 سے 21 سال کے طلبا کے لیے نہ صرف کاؤنسلنگ بلکہ ان کی جذباتی طبیعت پر قابو پانے کے لیے مزید تفریحی سہولیات کی تجویز بھی دی ہے۔

انہوں نے کہا کہ طلبا اپنا کثیر وقت ذہنی دباؤ میں گزارتے ہیں، پہلے اسکول ہوتا ہے، پھر ٹیوشن اور اس کے بعد مسجد یا مدرسے میں مذہبی تعلیم۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اسکول میں تربیت یافتہ اساتذہ ہونے چاہیئیں جو بے چینی، مایوسی، غصہ اور عجیب رویہ رکھنے والے بچوں کی نشاندہی کر سکیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’والدین کے لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ وہ اپنے بچوں پر کم دباؤ ڈالیں اور انہیں انجینئرنگ یا میڈیکل کالجز میں داخلے کے لیے مجبور کرنا چھوڑ دیں۔'

انہوں نے کہا کہ والدین کو یہ بھی چاہیے کہ وہ بچوں کو ان کی دلچسپی کے دیگر شعبے منتخب کرنے دیں۔


یہ خبر ڈان اخبار میں 7 ستمبر 2018 کو شائع ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں