بطور والدہ یا والد آپ کی زندگی میں کئی بار ایسے لمحات آئے ہوں گے جب آپ کے بچے نے اچانک چھوٹی سی بات پر چیخنا چلانا، اچھل کود کرنا یا زور سے رونا شروع کردیا۔ یقیناً یہ نہایت پریشان کن صورتحال ہے، اور پھر جب یہ سب کچھ سڑک یا بازار میں ہو تو آپ بھی پریشان ہوکر خود بھی چیخنا چلانا چاہتے ہیں۔

مگر یہ آپ کو بھی معلوم ہے کہ آپ کے چلانے سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوگا۔ تو پھر ایسی صورتحال میں کیا کیا جائے؟

امریکی ماہر کا کہنا ہے کہ آپ کے چلانے سے معاملہ اور بھی بگڑ جائے گا، مزید یہ کہ لوگوں کے سامنے آپ کا اور آپ کے بچے کا تماشا سا بن جائے گا اور پھر اس تجربے کو بھولنا بہت ہی مشکل کام ہوتا ہے۔

مزید پڑھیے: بچوں میں دوڑنے کا رجحان کیسے پیدا کریں؟

وہ مشورہ دیتی ہیں کہ جب بچے اس طرح شور مچانا شروع کریں تو خود پر قابو رکھیے اور اس صورتحال سے نمٹنے کی تدبیر اپنائیے اور وہی کیجیے جو آپ کو کرنا ہے۔ بچے کو جواباً آپ کی جانب سے شور مچانے یا زور سے ڈانٹنے سے صورتحال بد سے بدتر ہی ہوگی اور بچے کو بھی صحیح پیغام نہیں جائے گا۔

اس صورتحال میں جتنا زیادہ آپ پُرسکون رہیں گے اتنا ہی زیادہ فائدہ ہوگا۔

بچوں پر غالب رہنے کے تخلیقی طریقے اپنائیں اور سوچیے کہ کس طرح چھوٹی چھوٹی رعاتیں بھی ایک بچے کے لیے زیادہ سے زیادہ فائدہ مند ثابت ہوسکتیں ہیں۔ مثلاً بچے کو آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ’ایک سانس لو اور ہم ایک ساتھ 3 تک گنتے ہیں، (اور پھر) ہم تمہیں وہ لے دیں گے جو تمہیں چاہیے، اور پھر ہم گھر جائیں گے۔‘ اس طرح آپ خود کو قابو میں رکھ پاتے ہیں اور شور و غل سے بھرپور صورتحال میں بھی آپ غالب رہیں گے۔

والدین سب سے بڑی غلطی کہاں کرتے ہیں؟

ہر بار بچوں کے شور مچانے پر ان کی ہر ضد ماننا بھی ٹھیک نہیں، یوں بچوں کو لگے گا کہ وہ شور مچا کر ہر بات منوا سکتے ہیں لہٰذا وہ اسے اپنی عادت بنالیں گے۔

جب بچوں کو بھوک لگی ہوتی ہے یا وہ تھکے ہوتے ہیں تو وہ اپنے احساسات بتانے سے قاصر ہوتے ہیں، اور چونکہ وہ اپنے جسمانی حالت (مثلاً بھوک، پیاس) اور اپنے جذبات کے درمیان تعلق کو سمجھ نہیں پاتے ہیں لہٰذا آپ کے لیے مشکلات بڑھ جاتی ہیں۔ لیکن جب آپ یہ جان جائیں گے تو یہ عین ممکن ہے کہ یہ صورتحال آپ کو شور و غل کی صورتحال سے بچنے میں مدد دے۔ مطلب یہ کہ رات کا کھانا کھائے بغیر رات کو بچوں کو کریانے کی دکان پر لے جانا اچھا خیال نہیں۔

مزید پڑھیے: بچوں کو ادب و آداب کیسے سکھائیں؟

اس کے علاوہ ایک سب سے بڑی غلطی ایسی کسی صورتحال میں حکمت عملی یا منصوبہ بندی کا نہ ہونا ہے۔ آپ خود ہی سوچیے آپ بال کٹوانے، کسی بزنس میٹنگ یا گاڑی خریدنے کے لیے جانے سے قبل تو پوری منصوبہ بندی کرتے ہیں لیکن ہم ہمیشہ اپنے بچوں کے شور مچانے میں خود کو پھنسا دیتے ہیں اور جس سے نکلنے کا ہمارے پاس کوئی پلان بھی نہیں ہوتا۔

اگر آپ کا بچہ کسی نہ کسی چیز کی ضد پوری کروانے کے لیے زور سے شور مچانا شروع کردیں تو آپ اسے یہ سمجھا سکتے ہیں کہ ’آپ جتنا اچھا سلوک روا رکھیں گے اتنا ہی آپ کو اپنی سالگرہ کے تحفوں اور دوستوں کے ساتھ کھیلنے کا موقع ملے گا‘ یا پھر اس کے اچھے سلوک کو اس کے پسندیدہ مشغلے کی اجازت سے مشروط کریں۔

اگر باہر کسی جگہ آپ کا بچہ ناقابل قبول برتاؤ کرتا ہے تو آپ اسے ڈانٹ ڈپٹ کرنے کے بجائے آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ’کیا تم اپنی سالگرہ کے تحفوں سے کھیلنا چاہتے ہو؟‘ اس طرح آپ خود پر قابو رکھتے ہوئے اور پُرسکون انداز میں بچے تک اپنی بات پہنچا پائیں گے جسے وہ سمجھیں گے بھی۔

تبصرے (1) بند ہیں

Aqsa Javaid Sep 19, 2018 12:52pm
Nice Share