اسلام آباد: چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت سپریم کورٹ کے دائرہ کار اور حدبندی کا جائزہ لیا جائے، جو عدالت عظمیٰ کو بنیادی حقوق کے اطلاق کے لیے مداخلت کا حق دیتا ہے۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے آرٹیکل کے دائرہ کار سے متعلق کیس کی سماعت کی، جو قانون کی خلاف ورزی پر عدالت کو ازخود نوٹس لینے کی اجازت دیتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: صاف پانی از خود نوٹس: معاملے کی تحقیقات نیب کے حوالے کرنے کا انتباہ

چیف جسٹس ثاقب نثار نے اٹارنی جنرل انور منصور سے مخاطب ہو کر کہا کہ ’عدالت جاننا چاہتی ہے کہ کیا وہ آرٹیکل 184(3) کی رو سے اپنے اختیارات سے تجاوز کر رہی ہے یا نہیں‘۔

واضح رہے کہ آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے مطابق ’عوامی نوعیت سے متعلق بنیادی حقوق کی خلاف ورزی پر عدالت عظمیٰ ضروری سمجھے تو اپنے اختیارات استعمال کرسکتی ہے‘۔

اس ضمن میں بینچ نے دو سینئر قانون دانوں کو عدالت کی معاونت کے لیے مقرر کرنے کا بھی اشارہ دیا ہے جس کے لیے اٹارنی جنرل، پاکستان بار کونسل (پی بی سی) اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کو نوٹس جاری کر دیئے گئے ہیں۔

مزید پڑھیں: وکلاء کے غیرقانونی چیمبرز کی تعمیر پر عدالت عظمیٰ کا از خود نوٹس

سماعت کی اگلی تاریخ کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔

سماعت کے فوری بعد سینئر کونسل راحیل کامران شیخ نے پی بی سی کے وائس چیئرمین کامران مرتضیٰ اور دیگر اراکین کو مراسلہ لکھا کہ 'بار معاملے پر نظر رکھے ہوئے ہے۔'

خیال رہے کہ سابق چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری نے اپنے دور میں متعدد ازخود نوٹسز لیے تھے جس پر متعدد وکلا نے تنقید کی اور عدالت پر زور دیا کہ وہ اپنے اختیارات کا خیال رکھے، کیونکہ ازخود نوٹس سے عدالتی وقار داؤ پر لگ رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ماورائے عدالت قتل ازخود نوٹس: راؤ انوار کی بینک اکاؤنٹ کھولنے کی استدعا

راحیل کامران شیخ نے اپنے مراسلے میں کہا کہ ’چیف جسٹس ثاقب نثار کی جانب سے آرٹیکل 184 (3) کے استعمال پر تشویش ہے اور وہ اپنے آئینی دائرہ کار سے تجاویز کر رہے ہیں اور چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ سے محض 4 ماہ قبل حد بندی کی بات کی جارہی ہے‘۔

تبصرے (0) بند ہیں