اسلام آباد: سپریم کورٹ نے بلوچستان میں گزشتہ 8 برس میں کان کنی کے دوران جان لیوا حادثات کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن تشکیل دے دیا۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق سماجی رکن اور کولمبیا یونیورسٹی سے عالمی قوانین برائے انسانی حقوق کی ڈگری حاصل کرنے والے درخواست گزار عثمان خاور نے موقف اختیار کیا کہ جوڈیشل کمیشن میں محکمہ لیبر کے ماہرین، متعلقہ حکومتی اداروں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کوشامل کیا جائے اور بلوچستان کی حکومت تمام اخراجات اٹھائے۔

یہ بھی پڑھیں: کوئٹہ: کوئلے کی کان میں حادثہ، 23 کان کن جاں بحق

انہوں نے کہا کہ بلوچستان حکومت بھی سفارشات پیش کرے تاکہ مستقبل قریب میں کان کنی کے دوران جان لیوا حادثات سے بچا سکے۔

عثمان خاور نے موقف اختیار کیا کہ کوئلے کی کان میں موت کا تصور انتہائی درد ناک ہے تاہم کان کن کے لیے جائے کار کو محفوظ بنانے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے اپنی درخواست میں بتایا کہ ’2010 سے 2018 کے درمیانی عرصے میں تقریباً 45 واقعات میں 318 کان کن جاں بحق ہوئے اور کان کنی کا شعبہ بنیادی ضروریات سے محروم ہے‘۔

مزید پڑھیں: کوئٹہ: کوئلے کی کان میں دھماکا، 14 کان کن پھنس گئے

بلوچستان میں رواں برس کے ابتدائی 8 ماہ میں تقریباً 50 کان کن جاں بحق ہوئے اور صرف اگست میں دو مختلف واقعات میں 17 مزدوروں کی جانیں گئیں۔

چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار سمیت دیگر ججز کو ارسال کی گئی درخواست میں کہا گیا کہ عدالتیں ڈائریکٹر جنرل کان کن، بلوچستان چیف انسپکٹر کان کن اور لیبر ویلفیئر کمشنر آف بلوچستان سے رپورٹ طلب کی جائے۔

درخواست گزار نے موقف اختیار کیا کہ ڈائریکٹر جنرل کان کن سے پوچھا جائے کہ بلوچستان منرل رولز 2002 کے تحت کتنے لائسنس منسوخ کیے گئے۔

مزیدپڑھیں: بلوچستان: کوئلے کی کان بیٹھنے سے ایک شخص ہلاک، 3 زخمی

عثمان خاور نے کہا کہ ’عدالت متعلقہ ذمہ داران کے خلاف کرمنل ایکٹ کے تحت قانونی عمل میں لائے اور مائنز ایکٹ کے سیکشن 21 کے تحت حادثات کی انکوائری کرائی جائے‘۔

تبصرے (0) بند ہیں