کراچی پولیس کے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل (اے آئی جی) ڈاکٹر امیر احمد شیخ نے کہا ہے کہ کراچی کی سیکیورٹی میں ‘بنیادی تبدیلی’ کے لیے پولیس میں موجود ‘کالی بھیڑوں’ کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔

ڈاکٹر امیرشیخ نے کراچی میں تمام ڈی آئی جیز اور ایس ایس پیز کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا کہ ‘پولیس فورس کے 36 ہزار اہلکاروں میں محض 100 یا اسی طرح کی کالی بھیڑیں بدنامی کا باعث ہیں’۔

انہوں نے کہا کہ ‘پولیس میں اس طرح کی کالی بھیڑوں کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا’۔

واضح رہے کہ ڈاکٹرامیر شیخ کو گزشتہ ماہ مشتاق مہر کی جگہ کراچی پولیس کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔

انہوں نے اعلان کیا کہ وہ کراچی بھر کے تمام تھانوں کے اسٹیشن انوسٹی گیشن افسران (ایس آئی اوز) کو ‘بااختیار’ کریں گے اور انوسٹی گیشن افسران (آئی اوز) کو کمپیوٹر، پرنٹرز اور فوٹو اسٹیٹ کی مشینیں فراہم کریں گے۔

یہ بھی پڑھیں:وفاق نے سندھ، پنجاب اور خیبر پختونخوا کے آئی جی پولیس تبدیل کردیے

اے آئی جی نے پولیس کے تفتیش کے نظام کو بہتر کرنے کے لیے تفتیشی یونٹس قائم کرنے کی ہدایات جاری کیں۔

ڈاکٹر امیر شیخ کا کہنا تھا کہ آئی اوز کو ایک ہی وقت میں بہت سارے کیسز تھمانے کے بجائے کیسز کی بہترین تفتیش کے لیے انہیں مہینے میں 3 سے 4 کیسز دیے جائیں گے۔

انہوں نے واضح کیا کہ ‘ہر تھانے میں 8 سے 10 اہلکاروں پر مشتمل چھاپہ مار ٹیمیں بنانا بھی منصوبوں میں شامل ہے’۔

کراچی پولیس کے سربراہ نے کہا کہ ‘کراچی کے ہر ضلعے میں اگلے 3 ماہ کے اندر عالمی معیار کے تفتیشی کمرے بھی قائم کیے جائیں گے’۔

یاد رہے کہ وفاق میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کے قیام کے بعد چاروں صوبوں کے پولیس سربراہان کو تبدیل کردیا گیا۔

مزید پڑھیں:سندھ پولیس کے نئے آئی جی کے لیے وفاق کو 3 نام بھجوا دیئے گئے

پنجاب کے سابق آئی جی کلیم امام کو امجد جاوید سلیمی کی جگہ سندھ کا نیا آئی جی تعینات کیا گیا ہے۔

وفاقی اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے اعلامیے کے مطابق سابق آئی جی سندھ پولیس امجد جاوید سلیمی کو اسٹیبلشمنٹ ڈویژن رپورٹ کرنے کی ہدایت کردی گئی ہے۔

سندھ حکومت نے آئی جی سندھ پولیس امجد جاوید سلیمی سے ان کا عہدہ واپس لینے اور ان کی جگہ دوسرا آئی جی پولیس لانے کے لیے وفاقی حکومت کو 3 نام تجویز کیے تھے۔

ان افسران میں ڈاکٹر کلیم امام، غلام نبی میمن اور ڈاکٹر امیر احمد شیخ کے نام شامل تھے تاہم ڈاکٹر کلیم امام کے نام کا فیصلہ سامنے آیا۔

تبصرے (0) بند ہیں