پاکستان کی جانب سے امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ وہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے (بی آر آئی) کے تحت بیجنگ سے ہونے والے معاہدوں میں اپنے کردار پر نظر ثانی کرے گا۔

وزیرِاعظم کے مشیر برائے تجارت، صنعت، ٹیکسٹائل اور سرمایہ کاری عبدالرزاق داؤد نے فنانشل ٹائمز کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی سابقہ حکومت نے بی آر آئی منصوبے کے تحت پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے منصوبوں کے معاہدوں میں اپنا ہوم روک نہیں کیا تھا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ گزشتہ حکومت نے چین سے درست طریقے سے معاملات طے نہیں کیے تھے جس کی وجہ سے انہوں نے بہت کچھ کھو دیا۔

مشیرِ تجارت نے غیر ملکی اخبار کو دیے گئے اپنے انٹرویو میں کہا کہ چینی کمپنیوں کو ٹیکس میں کافی چھوٹ ملی ہے اور یہ ان کے لیے پاکستان میں غیر معمولی فوائد ہیں، اور یہی وہ وجہ ہے جس کے بارے میں ہم سوچ رہے ہیں کیونکہ یہ ٹھیک نہیں ہے کہ پاکستانی کمپنیوں کو نقصان ہو۔

مزید پڑھیں: سی پیک کے فائدے پاکستان، چین کیلئے یکساں ہیں، احسن اقبال

خیال رہے کہ حال ہی میں چین کے وزیرِ خارجہ وانگ زی نے پاکستان کا دورہ کیا تھا اور اس دوران انہوں نے عندیہ دیا تھا کہ بیجنگ اسلام آباد کے ساتھ 2006 میں ہونے والے معاہدے پر نظرثانی کر سکتا ہے۔

ان کہنا تھا سی پیک نے پاکستان کو قرض کا بوجھ نہیں دیا، اور اس منصوبے کے تحت ایک مرتبہ پاکستان میں دیگر منصوبے مکمل ہوگئے تو اس سے پاکستان کو بہت بڑا معاشی فائدہ حاصل ہوگا۔

پاکستان کو شی جن پنگ کے دنیا پر اپنے اثر و رسوخ بڑھانے کے مبینہ خیالات کی وجہ سے بھی بی آر آئی منصوبے پر دھچکا لگا، کیونکہ ملائیشیا، سری لنکا اور میانمار کی حکومتوں نے بھی بی آر آئی منصوبے میں قرض اور سرمایہ کاری کی شرائط پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

عبدالرزاق داؤد نے غیر ملکی اخبار کو بتایا کہ عمران خان نے سی پیک منصوبے کا جائزہ لینے کے لیے ایک 9 رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے جس کا اجلاس رواں ہفتے کسی بھی روز ہو سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاک-چین اقتصادی راہداری کے قرض کی ادائیگی کی تیاری

انہوں نے مزید بتایا کہ اس اجلاس میں سی پیک کے تمام قرضوں اور اس کے فوائد کے بارے میں جائزہ لیا جائے گا۔

وزیرِ اعظم کے مشیر کا کہنا تھا کہ ’میرا خیال ہے کہ ہمیں ایک سال کے لیے تمام چیزوں کو روک دینا چاہیے، یا پھر شاید ہم سی پیک منصوبے کو مزید 5 سال کے لیے بڑھا دیں‘۔

ادھر وفاقی وزیرِ خزانہ اسد عمر نے بھی فنانشل ٹائمز کو بتایا کہ وہ ایک ایسا منصوبہ لے کر آرہے ہیں جو اسلام آباد کو عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے دور رکھے گا۔

تاہم اسد عمر اور عبدالرزاق داؤد دونوں ہی کا کہنا ہے کہ پاکستان کو محتاط رہنا ہوگا کہ ان کے کسی بھی اقدام سے بیجنگ کی تضحیک نہ ہو کیونکہ اسلام آباد گزشتہ 5 سال کے دوران سی پیک منصوبے میں ہونے والے معاہدوں پر نظرثانی کرنے جارہا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں