چین نے خاندانی منصوبہ بندی کی پالیسی بنانے کی ذمہ دارتین ایجنسیوں کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جو اس بات کا اشارہ ہے کہ حکومت طویل مدت سے بچوں کی تعداد کے حوالے سے عائد پالیسی میں تبدیلی لانے کی خواہاں ہے۔

حکومت کا مذکورہ اقدام چین کی نیشنل ہیلتھ کمیشن کو دوبارہ منظم کر نے کے منصوبے کا حصہ ہے جس کے تحت پاپولیشن مانیٹرنگ اینڈ فیملی ڈیولپمنٹ کے نام سے ایک ادارے کی تشکیل ہو جو 'خاندانوں سے تعاون کے لیے ایک منظم طریقہ کار تیار کرے'۔

چین میں خاندانی منصوبہ بندی کی پالیسی کی تبدیلی کا امکان اس وقت ظاہر ہوا تھا جب گزشتہ مہینے ایک پوسٹل اسٹامپ جاری کیا گیا تھا جس میں ایک پگ جوڑے کو تین بچوں کے ساتھ دکھایا گیا تھا۔

ملک میں تیزی سے بڑھتی ہوئی بزرگ آبادی اور افرادی قوت میں کمی کے خطرے کے بعد چین نے ’ایک بچہ‘ پالیسی ختم کرتے ہوئے جوڑوں کو 2 بچوں کی اجازت دے دی تھی۔

چین کے اس اقدام کے بعد 2016 میں شرح پیدائش میں 8 فیصد اضافہ ہوا تھا جن میں سے نصف بچے ان جوڑوں کے ہاں پیدا ہوئے تھے جن کے پہلے سے ہی ایک بچہ موجود تھا۔

تاہم یہ اضافہ ایک ہی مرتبہ ہوا گزشتہ برس چین میں 1 کروڑ 72 لاکھ پیدا ہوئے تھے جبکہ 2016 میں یہ تعداد1 کروڑ 79 لاکھ تھی۔

علاوہ ازیں گزشتہ برس 60 سال یا اس سے زیادہ عمر کے افراد کی تعداد میں 17.9 فیصد اضافہ ہوا تھا۔

چین آبادی کے لحاظ سے دنیا میں اس وقت پہلے نمبر پر ہے اور اس کی تعداد ایک ارب 40 کروڑ ہے جبکہ 2019 میں آبادی ایک ارب 45 کروڑ سے تجاوز ہونے کے امکانات ہیں۔

خیال رہے کہ ایک طرف چینی حکام جہاں ایک بچہ پالیسی کو 4 کروڑ بچے کی اضافی پیدائش کو روکنے کا سبب گردانتے ہیں وہی دوسری جانب ماہرین کا خیال ہے کہ شرح پیدائش میں کمی سے چین نے معاشی اور تعلیمی میدان میں ترقی حاصل کی۔

چین میں 36 سال تک قائم رہنے والی اس پالیسی کی وجہ سے لڑکوں کی پیدائش کو لڑکیوں پر فوقیت دی جاتی تھی جس کے نتیجے میں ایک اندازے کے مطابق دہائی کے اختتام پر چین میں خواتین کی نسبت 3 کروڑ سے زائد مرد موجود ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں