افغانستان کے مشرقی صوبے ننگرہار میں مقامی پولیس کمانڈر کے خلاف احتجاج کے لیے جمع ہونے والے شہریوں کے ایک گروپ کے درمیان ہونے والے خود کش دھماکے سمیت دیگر حملوں میں 68 سے زائد افراد جاں بحق اور 130 زخمی ہوگئے۔

اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق ننگرہار پولیس ہیڈکوارٹرز کے کیپٹن قیس سیفی کا کہنا تھا کہ ‘400 کے قریب شہری جمع تھے کہ ان کے درمیان ہی خودکش بمبار نے خود کو اڑا دیا’۔

ننگرہار کے پولیس سربراہ جنرل غلام ثنائی استنکزئی کا کہنا تھا کہ ضلع اچین سے سیکڑوں افراد دارالحکومت جلال آباد اور پاکستان کے ساتھ جڑی سرحد طورخم کے درمیان مرکزی شاہراہ کو معطل کرنے کے لیے ضلع موندارا آئے تھے۔

پولیس چیف کا کہنا تھا کہ مقامی افراد پولیس کمانڈر کے خلاف شکایت کے لیے جمع ہوئے تھے اور اسی دوران خود کش بمبار نے انہیں نشانہ بنایا تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ حملہ احتجاج کی نوعیت کے حوالے سے باخبر تھا یا نہیں۔

ننگرہار میں ہی پیش آنے والے دوسرے واقعے میں ایک شہری جاں بحق اور 4 زخمی ہوئے۔

صوبائی گورنر کے ترجمان عطااللہ خوغانی کا کہنا تھا کہ یہ حملہ مختلف اسکولوں کے قریب ہونے والے بم دھماکوں کے سلسلے کی کڑی تھا۔

انہوں نے کہا کہ پہلا بم دھماکا جلال آباد میں ایک اسکول کے قریب کیا گیا جس کے بعد ضلع بہسود میں دو اسکولوں کے قریب کے مزید حملے کیے گئے۔

گورنر کے ترجمان کا کہنا تھا کہ پہلے حملے میں 14 سالہ طالب علم جاں بحق اور دیگر 4 زخمی ہوئے ۔

ننگرہار میں ہونے والے حملوں کی ذمہ داری تاحال کسی گروپ نے تسلیم نہیں کی تاہم طالبان اور داعش سمیت کئی گروہ صوبے میں بھرپور طور پر سرگرم ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں