اگر تو آپ کو لگتا ہے کہ آپ کے بچے کسی بندر کی طرح اچھل کود کرتے ہیں تو جان لیں کہ سائنسدان بھی آپ کے اس خیال سے اتفاق کرتے ہیں بلکہ انہوں نے تو ننھے فرشتوں کو ننھے گوریلا قرار دے دیا ہے۔

جی ہاں ایک سے 2 سال کے بچے اور ان کی جسمانی حرکات 96 فیصد تک چیمپنزی اور گوریلا سے ملتی ہیں۔

یہ دعویٰ اسکاٹ لینڈ میں ہونے والی ایک تحقیق میں سامنے آیا۔

اسکاٹ لینڈ یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ ایک سے دو سال کی عمر بچوں کی نشوونما کے لیے بہت ضروری ہے اور اس دوران ان کی حرکات و انداز گوریلوں اور چیمپنزی جیسی ہوتی ہے جیسی یہ جانور روزمرہ کے دوران ایک دوسرے سے رابطوں کے لیے کرتے ہیں۔

یہ اپنی طرز کی پہلی تحقیق ہے جس میں انسانوں اور بندروں کی مختلف اقسام کے درمیان مماثلت کا جائزہ لیا گیا۔

اس مقصد کے لیے یوگنڈا کے جنگلات میں چیمپنزیوں کی ویڈیوز بنائی گئیں جبکہ 13 چھوٹے بچوں کو اپنے ساتھیوں سے رابطے کرتے ہوئے کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کیا گیا۔

محققین کا کہنا تھا کہ انسانوں اور چیمپنزی ہی ایسی مخلوقات ہیں جن کے پاس کمیونیکشن کا سسٹم موجود ہے جس کی مدد سے وہ ایک دوسرے کو پیغامات بھیجتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اسی نظریے کے تحت ہم نے تحقیق میں جانا کہ بچے بھی درحقیقت چھوٹے گوریلے ہوتے ہیں۔

تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ گوریلا یا چیمنزی وغیرہ ایک دوسرے سے رابطے کے لیے 80 سے زائد مختلف اشارے استعمال کرتے ہیں اور حیران کن طور پر ان میں سے اکثر اشارے بچوں میں عام ہوتے ہیں۔

مجموعی طور پر گوریلوں اور بچوں میں 96 فیصد تک اشارے ایک جیسے ہوتے ہیں۔

اس تحقیق کے نتائج جریدے جرنل اینیمل Cognition میں شائع ہوئے۔

تبصرے (0) بند ہیں