مٹھی: صوبہ سندھ کے قحط زدہ ضلع تھر میں خودکشی کے رجحان میں خطرناک حد تک اضافہ ہوگیا ہے اور گزشتہ پانچ برس میں 372 افراد کی خودکشی کے واقعات سامنے آئے۔

حال ہی میں ضلع تھر کے علاقے نگرپارکر کے قریبی گاؤں میں ایک 21 سالہ شادی شدہ خاتون نے رسی سے گلے میں پھندا ڈال کر خودکشی کرلی۔

21 سالہ خاتون ہیتی کولہی پر سسرال والوں کی جانب سے اپنا ہار بیچنے کے لیے دباؤ ڈالا جارہا تھا، جس پر اس نے دلبرداشتہ ہوکر اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا۔

ہیتی کے شوہر سرداریو کولہی کا پولیس کو دیئے گئے بیان میں کہنا تھا کہ ان کی اہلیہ کو اپنے زیورات بیچنے کا کہا تھا، تاکہ روزگار کی تلاش کے لیے قحط زدہ علاقے سے نقل مکانی کر لیں تاہم اس نے خودکشی کرلی۔

مزید پڑھیں: تھرپارکر: خودکشیوں کے رجحان میں خطرناک اضافہ

تھر کے علاقے میں 'اویئر تھر' نامی این او جی کی پولیس سمیت دیگر ذرائع سے جمع کردہ تفصیلات کے مطابق گزشتہ پانچ سالوں میں تھر میں 372 افراد نے غربت اور دیگر سماجی مسائل سے دلبرداشتہ ہو کر موت کو گلے لگایا۔

رواں سال تھر کے مختلف علاقوں میں 56 افراد نے خودکشی کی جبکہ 2017 میں یہ تعداد 74 تھی، جس میں 34 مرد، 34 خواتین اور 18 سال سے کم عمر کے 6 بچے شامل تھے۔

سال 2016 میں 32 خواتین اور دو بچوں سمیت 65 افراد نے گلے میں پھندا ڈال کر، کنویں میں چھلانگ لگا کر خودکشی کرلی تھی۔

2015 میں 24 خواتین سمیت تھر کے 44 شہریوں نے خودکشی کی، 2014 میں یہ تعداد 45 تھی جن میں 24 خواتین بھی شامل تھیں، جبکہ 2013 میں 29 افراد نے موت کو گلے لگایا تھا۔

تاہم حیران کن بات یہ ہے کہ خودکشی کے رجحان میں خطرناک حد تک اضافے کے باوجود ان پانچ سالوں میں کسی ایک حادثے کی ایف آئی آر درج نہیں کی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: تھرپارکر: خواتین میں خودکشی کا رجحان بڑھنے لگا

گزشتہ برسوں میں چار خواتین نے اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ کنویں میں چھلانگ لگا کر خودکشی کی، ان میں وہ ہولناک حادثہ بھی شامل ہے جب جنوری 2017 میں ایک حاملہ خاتون نے اپنے دو بچوں کے ہمراہ اسلام کوٹ کے قریبی گاؤں میں خودکشی کی تھی۔

ایس ایس پی تھر عمران قریشی نے ڈان کو بتایا کہ اس علاقے میں خودکشی کی کئی وجوہات ہیں۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ تھر کے شہری حادثے کی تفتیش میں پولیس کی مدد حاصل کرتے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں