پولیس کے ایک اعلیٰ افسر نے عالمی دہشت گرد تنظیم دولت اسلامیہ گروپ (داعش) کی موجودگی کا اعتراف کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان میں موجود اس نیٹ ورک سے منسلک اغوا برائے تاوان اور ٹارگٹ کلنگ میں ملوث 3 مشتبہ انتہا پسندوں کو گرفتار کرلیا گیا ہے جن کے قبضے سے ایک کروڑ روپے اور اسلحہ بھی برآمد کرلیا گیا ہے۔

کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے سی آئی اے کے ڈی آئی جی ڈاکٹر امین یوسف زئی نے انکشاف کیا کہ داعش کے اسی نیٹ ورک کے 2 اہم کمانڈروں کو پہلے مارا جاچکا ہے جبکہ دیگر 4 مفرور ہیں۔

ڈاکٹر امین یوسف زئی نے کہا کہ 6 فروری 2018 کو محمد راحیل نامی ایک شہری کو 3 اغواکاروں نے گلستان جوہر کے بلاک 6 سے اغوا کیا تھا، جس کے بعد متاثرہ شہری کے بھائی نبیل کو افغانستان کی سم سے ایک فون موصول ہوا اور ان سے بھائی کی رہائی کے عوض 10 کروڑ روپے تاوان کا مطالبہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ کیس اے وی سی سی کو منتقل کیا گیا اور متاثرہ خاندان نے اے وی سی سی کی ٹیم سے مشاورت سے اغواکاروں سے ڈیل کی اور ان کی رہائی کے لیے یک کروڑ روپے ادا کیے۔

یہ بھی پڑھیں:بلوچستان: فورسز کی کارروائی میں 3 دہشت گرد ہلاک، کرنل شہید

ڈی آئی جی کا کہنا تھا کہ پولیس نے اس کیس پر سی پی ایل سی کی مدد سے کام شروع کیا اور کراچی کے مضافات اور بلوچستان میں چھاپے مار کر روح اللہ، مختیار اور نعیم نامی 3 مشتبہ افراد کو حراست میں لیا اور ان کے قبضے سے اسلحہ اور تاوان کے پیسے بھی برآمد کیے۔

سی آئی اے سربراہ نے انکشاف کیا کہ ‘گرفتار مشتبہ افراد کا تعلق داعش پاکستان کے نیٹ ورک سے تھا’۔

گرفتار مشتبہ افراد کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ زیرحراست افراد سے ابتدائی تفتیش کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ نعیم نے راحیل کو اغوا کیا تھا اور تاوان بھی وصول کیا تھا۔

سینئر افسر کا کہنا تھا کہ انتہاپسندوں کے داعش کے اس نیٹ ورک نے ایک اور شہری عابد سہیل کو کچھ عرصہ قبل شہر سے اغوا کرنے کے بعد تاوان نہ ملنے پر قتل کرکے ایک گھر کے اندر دفنا دیا تھا۔

مزید پڑھیں:کراچی : 41 اہلکاروں کا قاتل ’داعش‘ کمانڈر ہلاک

ان کا کہنا تھا کہ ‘اس گینگ نے ایک تاجر اشرف تائی کو سائٹ ایریا سے اور ایک شہری نعیم کو بھی اغوا کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے’۔

انہوں نے کہا کہ مشتبہ افراد اغوا برائے تاوان کے علاوہ شیعہ برادری کے 4 افراد کی ٹارگٹ کلنگ میں بھی ملوث تھے اور اسی طرح منگھوپیر میں ایک پولیس اہلکار اور ‘پولیس کے پیغام رساں’ 2 افراد کو بھی قتل کیا۔

پاکستان میں داعش کے نیٹ ورک کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ڈی آئی جی ڈاکٹر امین یوسف زئی نے دعویٰ کیا کہ کراچی میں اس نیٹ ورک کے رکن مشرف محسود کو 13 جولائی کو اس وقت مارا گیا تھا جب شہر کے مضافات میں چھاپے کے دوران انہوں نے ایک گھر کی چھت سے چھلانگ لگائی تھی۔

یاد رہے کہ پاکستان میں داعش کے سربراہ مفتی کفایت اللہ کو سیکیورٹی فورسز نے بلوچستان کے علاقے قلات میں ایک ‘مقابلے’ میں ہلاک کر دیا تھا جبکہ آئی ایس بلوچستان کے سربراہ سلمان بادینی کو کوئٹہ میں ایک مقابلے میں نشانہ بنایا گیا تھا۔

سی آئی اے کے سربراہ ڈاکٹر امین یوسف زئی نے کہا کہ داعش کے 4 دیگر اراکین اکبر، مقبول، یوسف اور دماغ جان مفرور ہیں اور ان کی گرفتاری کے لیے کوششیں جاری ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں