اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت نے مسلم لیگ (ن) کی سابق حکومت پر تنقید کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ وہ 62 ارب ڈالر کے پاک ۔ چین اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے پر تیزی سے عمل درآمد کرے گی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سی پیک سے متعلق اجلاس کے بعد وزیر منصوبہ بندی مخدوم خسرو بختیار نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ سی پیک منصوبے کو نہ صرف دوسرے ممالک کے لیے کھولا جائے گا بلکہ مستقبل کے منصوبوں کی فنانشل ماڈلنگ کے لیے بین الاقوامی کنسلٹنٹس رکھے جائیں گے۔

انہوں نے سی پیک کے تناظر میں چینی قرضوں کے بارے میں کچھ کہنے سے گریز کیا تاہم انہوں نے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ مستقبل کے منصوبوں کے لیے نئی مالی طریقوں کو تلاش کیا جائے گا۔

مزید پڑھیں: ’پاکستان سی پیک منصوبے کے معاہدوں پر نظرثانی کرے گا‘

سی پیک منصوبوں کے تحت چینی قرضے کی واپسی سے متعلق ایک سوال کے جواب میں وزیر منصوبہ بندی کا کہنا تھا کہ چین نے قرضے کے ذریعے 6 ارب ڈالر کے انفراسٹرکچر کے منصوبوں کا معاہدہ کیا اور 2021 سے پہلے ان قرضوں کی واپسی کی کوئی وجہ نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ چین کے قرضے 95 ارب ڈالر کے مجموعی غیر ملکی قرضوں میں شامل ہیں اور حکومت تمام مالیاتی ذمہ داریوں کو پورا کرے گی۔

خسرو بختیار نے سابقہ حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ (ن) نے 6 ارب ڈالر کی رقم میں سڑکوں اور موٹروے کی تعمیر کی جبکہ ڈھائی ارب ڈالر میں لاہور اورنج لائن منصوبہ بنایا، لیکن 9 ارب ڈالر کے اہم مرکزی ریلوے لائن (ایم ایل-1) کے منصوبے پر کوئی توجہ نہیں دی۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ سرمایہ کاری کے نئے مواقع تلاش کیے جائیں تاکہ قرضوں کو محفوظ کرکے انجینئرنگ، خریداری اور تعمیراتی معاہدے کے بجائے مستقبل کے منصوبوں کو تعمیر، کام اور منتقلی کی بنیاد پر شروع کیا جاسکے۔

وزیر منصوبہ بندی کا کہنا تھا کہ حکومت نے ایک بزنس کونسل بنانے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ صنعتی اور سمندری شعبے کے ذریعے سی پیک کے منصوبوں کو تیزی سے تکمیل کی طرف لے جایا جاسکے۔

یہ بھی پڑھیں: سی پیک پر عالمی برادری کو زیادہ اندازے لگانے کی ضرورت نہیں، چین

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ سماجی و اقتصادی ترقی کے لیے ایک مشترکہ ورکنگ گروپ قائم کیا جائے جس سے تعلیم، صحت، پیشہ وارانہ تربیت اور صلاحیت کے منصوبوں کو فروغ دیا جاسکے۔

ایک سوال کے جواب میں خسرو بختیار نے کہا کہ توانائی کے شعبے کا گردشی قرضہ اس وقت پاکستان کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے اور بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے ارد گرد ہونے تک کوئی توانائی پالیسی کامیاب نہیں ہوسکتی۔

ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے صرف توانائی کی پیداوار پر توجہ دی، لیکن اس نے ترسیل اور تقسیم کو نظر انداز کر دیا جس کے نتیجے میں گردشی قرضوں میں اضافہ ہوا۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے سی پیک سمیت توانائی اور انفراسٹرکچر کے جاری منصوبوں کو ترجیحی بنیادوں پر مکمل کرنے کے حوالے سے اہم فیصلے کیے ہیں، اس سلسلے میں صنعتی تعاون کو بھی فروغ دیا جائے گا کیونکہ ملک میں مینوفیکچرنگ ختم ہوگئی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں