Dawnnews Television Logo
پشاور میں ایک ملازم مردہ چوہوں کا ڈھیر سمیٹ رہا ہے —فوٹو : اے ایف پی

پشاور میں روزانہ 7 افراد کو چوہے کاٹتے ہیں،ان سے کیسے بچا جائے؟

اگرچوہوں کی افزائشِ نسل نہیں روکی گئی تو آئندہ سالوں میں ان کا مقابلہ کرنا ایک بہت بڑا چیلنج ہوگا، نصیر احمد
اپ ڈیٹ 14 ستمبر 2018 06:53pm

خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے ویکسینشن روم کے باہر چوہے کے کاٹنے سے زخمی ہونے والے مریضوں کی ایک لمبی قطار ہے، جس کا علاج نہ کراویا جائے تو مہلک ہوسکتا ہے۔

لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے چیف ویکسینیٹر آفرین جان کا کہنا تھا کہ روزانہ تقریباً 7 سے 10 مریض یہاں لائے جاتے ہیں، انہوں نے بتایا تھا کہ پچھلے 30 منٹ میں لائے گئے مریضوں میں سے 4 افراد کو چوہوں نے کاٹا تھا اور یہ روز کا معمول ہے۔

خیال رہے کہ پشاور بہت تیزی سے چوہوں کا گڑھ بن رہا ہے کیونکہ چوہوں کی شرح پیدائش بہت زیاد ہ ہے، یہ کم آمدن والے افراد کو متاثر کررہے ہیں۔

پشاور کی تنگ گلیوں میں دن کے وقت بلی کی جسامت رکھنے والے چوہے دیکھے گئے ہیں، جو رات کے وقت بچوں اور بڑوں کو کاٹتے ہیں۔

ان خونخوار چوہوں نے علاقہ مکینوں میں خوف و دہشت سمیت بیماریاں پھیلائی ہوئی ہیں۔

مزید پڑھیں : پشاور: چوہے کے کاٹنے سے 8 ماہ کا بچہ ہلاک

لیڈی ریڈنگ ہسپتال سمیت خیبر ٹیچنگ ہسپتال اور حیات آباد میڈیکل کمپلیکس چوہوں کے کاٹنے سے زخمی ہونے والے افراد کا مفت علاج کرتے ہیں اور ان کا ڈیٹا بھی رجسٹر کرتے ہیں۔

آفرین جان کا کہنا تھا کہ ’چوہے کے کاٹنے سے زخمی ہونے والے اکثر مریضوں کا تعلق غریب علاقوں سے ہے اور وہ زمین پر سوتے ہیں۔‘

چوہے انسانوں کو کیوں کاٹ رہے ہیں اور یہ کہاں سے آتے ہیں؟

چوہے گوشت خور جانور نہیں ہیں لیکن گنجان آباد علاقوں میں گھروں کے اندر اور باہر موجود کچرا انہیں متوجہ کرتا ہے اور وہ غذا کی تلاش میں چہرے، ہاتھوں اور پاؤں پر کاٹ لیتے ہیں۔

علاوہ ازیں کھلے ہوئے گٹر ، بڑھتی ہوئی شہری آبادی اور نکاسی آب کے ناقص انتظامات کی وجہ سے یہ علاقے چوہوں کی آماجگاہ بن گئے ہیں۔

پشاور میں چوہوں کے کاٹنے سے متاثرہ افراد —فوٹو : پشاور یونیورسٹی
پشاور میں چوہوں کے کاٹنے سے متاثرہ افراد —فوٹو : پشاور یونیورسٹی

پشاور یونیورسٹی کے شعبہ حیوانیات (زولوجی) میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق سال 2016 میں پشاور میں رپورٹ کیے گئے چوہوں کے اکثر کیسز کا تعلق دو نسلوں سے تھا،جن میں مقامی کالے رنگ کے چوہے اور غیر مقامی بھورے چوہے شامل تھے۔

تحقیق کے مطابق پشاور میں غیر مقامی بھورے چوہوں کی آمد کراچی سے ہوئی جہاں سے وہ اکثر فوڈ کنٹینرز کے ذریے یہاں آتے ہیں۔

تحقیق میں اس بات پر بھی روشنی ڈالی گئی کہ دیگر ماحولیاتی تبدیلیاں جیسے درجہ حرارت، نمی، اونچائی اور انسانی عناصر جیسا کہ انسانی آبادی کی گنجائش، سڑکوں سے دوری، پانی کے نظام سے فاصلہ اور زمین کا استعمال چوہوں کی وبا پھیلنے کی اہم وجوہات ہیں۔

چوہوں کا شکاری

حکومت نے علاقہ مکینوں میں دہشت پھیلانے والے چوہوں کے خلاف مہم کا آغاز کیا ہے اور اس مقصد کے لیے’ ماہر چوہا مار ’ 43 سالہ نصیر احمد کی خدمات حاصل کی ہیں۔

شعبہ پانی اور نکاسی آب پشاور کے ضلعی ناظم امین گل نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ نصیر احمد کی سربراہی میں ٹیم دن رات چوہوں کا شکار کررہی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت نے شہر میں چوہوں کی بڑھتی ہوئی تعداد سے نمٹنے کے پیش نظر خصوصی بجٹ بھی منظور کیا ہے۔

نصیر احمد 2016 سے حکومت کے لیے کام کررہے ہیں لیکن وہ گزشتہ 9 برس سے چوہوں کا شکار کررہے ہیں۔

نصیر احمد مردہ چوہا پکڑے ہوئے ہیں —فوٹو اے ایف پی
نصیر احمد مردہ چوہا پکڑے ہوئے ہیں —فوٹو اے ایف پی

ان کا کہنا تھا کہ ان کی بیٹیوں نے بھی شہر کو چوہوں سے پاک کرنے میں ان کی مدد کی، انہوں نے بتایا کہ ’ میں نے چوہے اس وقت مارنا شروع کیے جب میرے دوست کی اہلیہ کو چوہے نے کاٹا۔

یہ بھی پڑھیں : پشاور میں چوہے مار مہم شروع

انہوں نے بتایا کہ وہ چوہے مار زہر کا ایک آمیزہ بنا کر کھانے پر چھڑک کرچوہوں کے بل اور سیوریج لائنر کے باہر رکھتے ہیں جو کہ ایک مشکل کام ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ چوہے زیر زمین بلوں میں رہتے ہیں اور چند گھنٹوں یا دنوں بعد ان کی لاشیں سیوریج میں تیر رہی ہوتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ جاننے کا کوئی طریقہ نہیں کہ پشاور میں کتنے چوہے ہیں لیکن جو تعداد بتائی جاتی ہیں اس کے مقابلے میں ان کی تعداد زیادہ ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ’ رات میں زہریلا آمیزہ پھیلانے کے بعد مردہ چوہوں کو اٹھانے کے لیے ہمیں صبح میں جلدی اٹھنا پڑتا ہے کیونکہ چوہوں کی لاشیں بھی خطرے کی نشاندہی کرتی ہیں۔‘

مزید پڑھیں : پشاور میں چوہے کے ’سر کی قیمت‘ 300 روپے

ڈبلیو ایس ایس پی میں شمولیت کے بعد نصیر احمد نے اپنے مشن کی رفتار تیز کرلی، ان کا کہنا تھا کہ ’ حکومت مجھے چوہوں کے خلاف اس جنگ میں ہر ممکن سہولت پہنچانے کی کوشش کرتی ہے۔‘

نصیر احمد نے مزید کہا کہ انہوں نے گزشتہ پانچ برس میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ چوہے مارے ہیں، انہوں نے بتایا کہ ’ہم ہر ہفتے 50 سے 60 چوہے مارتے ہیں لیکن چوہوں کی شرح پیدائش بہت زیادہ ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ میری کوششوں کے باجود شہر میں چوہوں کا خطرہ برقرار رہتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اگر ہم ابھی چوہوں کی افزائش نسل نہیں روکتے تو یہ صحت کے لیے مزید مسائل پیدا کریں گے جو آئندہ سالوں میں ایک بہت بڑا چیلنج ہوگا۔