چین میں ایغور افراد کی قید کے خلاف بھارتی مسلمان سراپا احتجاج

اپ ڈیٹ 10 فروری 2019
بھارتی مسلمان ممبئی میں سراپا احتجاج ہیں — فوٹو: اے پی
بھارتی مسلمان ممبئی میں سراپا احتجاج ہیں — فوٹو: اے پی

بھارت کے شہر ممبئی میں مسلمانوں نے چین کے صوبے سنکیانگ میں ایغور مسلم اقلیت سے تعلق رکھنے والے افراد کو حراستی کیمپوں میں قید کیے جانے پر احتجاجی مظاہرہ کیا۔

عرب نیوز کی رپورٹ کے مطابق ممبئی میں نمازِ جمعہ کے بعد مسجد کے باہر سیکڑوں مسلمانوں نے مظاہرہ کیا اور چین مخالف نعرے بھی لگائے۔

مظاہرین میں سے ایک شخص محمد سعید نوری کا کہنا تھا کہ چین حراستی کیمپوں میں قید مسلمانوں سے ان کی مذہبی آزادی چھین رہا ہے۔

خیال رہے کہ چین نے سنکیانگ صوبے میں اسلام کی تعلیمات اور ایغور زبان پر سخت پابندیاں عائد کردی ہیں، جس سے متعلق چین کا مؤقف ہے کہ ان سے سنکیانگ میں رہائش پذیر غریب افراد کو معاشی فوائد حاصل ہوں گے۔

چین کا کہنا تھا کہ سنکیانگ میں مسلمانوں کے ساتھ بدسلوکی نہیں کی جارہی بلکہ انتہاپسندی کے پھیلاؤ سے بچنے کے لیے کچھ لوگوں کو تربیت فراہم کی جارہی ہے۔

مزید پڑھیں: ’چین میں مسلمانوں سے بدسلوکی نہیں بلکہ ان کی تربیت کی جارہی ہے‘

امریکی حکومت کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی میں مبینہ طور پر ملوث چینی کمپنیوں اور عہدیداروں پر پابندیاں عائد کرنے پر غور کیا جارہا تھا۔

اس حوالے سے چینی اسٹیٹ کونسل انفارمیشن کے بیورو برائے انسانی حقوق کے ڈائریکٹر آف پبلسٹی لی زیاؤ جن کا کہنا تھا کہ ’یہ بدسلوکی نہیں بلکہ چین پیشہ ورانہ تربیت کے مراکز اور تعلیمی ادارے قائم کر رہا ہے‘۔

چینی عہدیدار کا مزید کہنا تھا کہ اسلام، چین کی نظر میں اچھی چیز تھا لیکن انتہا پسندی انسانیت کی سب سے بڑی دشمن ہے، یہ بہت غلط عناصر ہیں جن کا سامنا افغانستان، پاکستان، شام اور عراق سمیت بیشتر ممالک کر رہے ہیں۔

یاد رہے کہ چند روز قبل چین نے گرجا گھروں، مساجد اور دیگر اداروں کے خلاف کارروائی کے تناظر میں انٹرنیٹ پر مذہبی سرگرمیوں کے لیے نئے قوانین لاگو کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں : چین کا آن لائن مذہبی سرگرمیوں کے خلاف نئے قوانین بنانے کا فیصلہ

آن لائن قوانین کے ابتدائی مسودے کے مطابق مذہبی معلومات یا اسی طرح کی آن لائن سروس فراہم کرنے کے خواہش رکھنے والے افراد کو اپنے نام سے درخواست دینا ہوگی، جسے اخلاقی اور سیاسی اعتبار سے قابل اعتماد جانچ کر پھر فیصلہ کیا جائے گا۔

علاوہ ازیں مذہبی سرگرمیوں جیسی عبادات، تبلیغ اور دیگر رسومات کو براہ راست نشر کیے جانے کی بھی اجازت نہیں ہوگی۔

واضح رہے کہ اقوام متحدہ کی نسلی تعصب کے خاتمے کے لیے قائم کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ 10 لاکھ سے زائد ایغور اور دوسری مسلم اقلیتوں کے افراد چین کے صوبے سنکیانگ میں جنگی قیدیوں کے کیمپوں میں قید ہیں۔

اقوام متحدہ کی کمیٹی نے رپورٹ میں اس تعصب کو ’خطرناک' قرار دیا تھا کہ سرکاری اعداد و شمار موجود نہیں کہ کتنے افراد طویل عرصے سے ان کیمپوں میں قید کا شکار ہیں یا کتنے افراد کو سیاسی تعلیمی سینٹر میں مختلف وقت گزارنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

چین نے اس رپورٹ کے رد عمل میں کہا تھا کہ ایغور مسلمانوں سے متعلق رپورٹ انسداد دہشت گردی کے تناظر میں بنائی گئی ہے جو حقائق کے منافی ہے۔

ایغور کون ہیں؟

چین کے جنوبی صوبے سنکیانگ میں مسلم اقلیتی برادری 'اغور' آباد ہیں جو صوبے کی آبادی کا 45 فیصد ہیں۔

سنکیانگ سرکاری طور پر چین میں تبت کی طرح خودمختار علاقہ کہلاتا ہے۔

کئی ماہ سے ایسی خبریں گردش کر رہی ہیں کہ ایغور سمیت دیگر مسلم اقلیتوں کو سنکیانگ صوبے میں قید کرلیا جاتا ہے لیکن چین کی حکومت ان خبروں کو مسترد کررہی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں