ترکی نے یورپ کو واضح کردیا ہے کہ شام کے شمال مغربی صوبے ادلب میں ہونے والی کارروائیوں کے نتیجے میں ترکی سے یورپ کی جانب مہاجرین کا نیا بحران پیدا ہوسکتا ہے۔

الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق ترکی کے صدارتی ترجمان ابراہیم کالن کا کہنا تھا کہ ‘ہر کسی کا عام نقطہ نظر یہی ہے کہ معاملے کا حل عسکری کے بجائے سیاسی ہونا چاہیے’۔

شام کے حوالے سے فرانس، جرمنی اور روس کے درمیان رہنما اجلاس کی تیاری کے سلسلے میں ہونے والی ملاقات کے بعد انقرہ سے جاری بیان میں ابراہیم کالن نے ادلب کے مسئلے کا سیاسی حل نکالنے پر زور دیا۔

انہوں نے کہا کہ اس بات پر عمومی طور پر اتفاق ہے کہ ادلب میں بڑے پیمانے پر فوجی حملوں سے انسانی بحران پیدا ہوگا اور مہاجرین کی ایک نئی لہر آئے گی۔

ترک صدارتی ترجمان نے کہا کہ ان کی حکومت ادلب کی موجودہ حیثیت کو برقرار رکھنا چاہتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ترک حکومت ادلب میں شہریوں کا تحفظ اور انسانی بحران سے بچنا چاہتی ہے۔

مزید پڑھیں:روس اور شامی فوج کی ادلب پر پھر شدید بمباری

اپنے بیان میں انہوں نے زور دیا کہ ‘مہاجرین کی نئی لہر سے نہ صرف ترکی پر بوجھ پڑے گا بلکہ یہاں سے یورپ تک بحران کا ایک نیا سلسلہ ہوسکتا ہے اس لیے کوئی بھی شخص یہ نہیں چاہے گا’۔

ابراہیم کالن نے کہا کہ ادلب میں بمباری ‘ناقابل قبول’ ہوگی۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘ہمیں عالمی برادری اور رہنما ؤں سے اس موقع پر توقع ہے کہ وہ ترکی سے مزید واضح اور کھل کر تعاون کریں گے’۔

یہ بھی پڑھیں:شام: 'روسی' طیاروں کی ادلب پر بمباری، متعدد شہری ہلاک

ترک صدر کے دورہ روس کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ صدر رجب طیب اردوان کا اگلے ہفتے سے روس کے شہر سوچی کا دورہ اور کوششیں اس حوالے سے نہایت اہمیت رکھتی ہیں۔

خیال رہے کہ ادلب میں جاری کشیدگی میں شامی حکومت کی جانب سے کی گئیں فضائی اور زمینی کارروائیوں میں صرف رواں ماہ میں اب تک 30 شہریوں کو مارا گیا ہے۔

شامی حکومت کے خلاف خونریز مظاہروں کے بعد 2011 میں شام میں شروع ہونے والی جنگ میں اب تک ساڑھے 3 لاکھ سے زائد افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں