سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے ہیں کہ جن کے پاس طاقت اور پیسہ آجاتا ہے وہ خود کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے نجی ہسپتالوں میں مہنگے داموں علاج کے خلاف ازخود نوٹس کی سماعت کی، اس دوران 12 نجی ہسپتالوں کے چیف ایگزیکٹوز اور ڈاکٹرز ہسپتال کے چیف ایگزیکٹو آفیسرغضنفرعلی شاہ پیش ہوئے۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ڈاکٹر صاحب آپ لوگوں کی خدمت نہیں کرسکتے تو ہسپتال بند کردیں، اس پر ڈاکٹر غضنفر علی شاہ نے کہا کہ آپ کی مرضی ہے بند کردیں۔

مزید پڑھیں: ’ہسپتالوں میں ادویات نہیں، افسر عیاشی کر رہے ہیں‘

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ مریضوں سے ایک لاکھ روپے سے زائد وصول کرتے ہیں، آپ کو دل کے اسٹنٹ ڈالنے کے لیے ایک لاکھ روپے تک وصول کرنے کا حکم دیا تھا، آپ عدالتی حکم کے باوجود اضافی پیسے کیسے وصول کرسکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ لوگوں کو آپ سے شکایات ہیں، آپ مہنگا علاج کرتے ہیں، پی ایم ڈی سی نے علاج کی جو قیمت طے کی ہے، اس سے زیادہ کوئی وصول نہیں کرے گا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ نے ایک مریض کا 30 دن کا بل 40 لاکھ روپے بنا دیا، غریبوں کو بھی اچھا علاج کروانے دیں، آپ اپنی قیمتوں پر نظرثانی کریں ورنہ عدالت فیصلہ کرے گی۔

اس دوران ڈی جی ایل ڈی اے نے بتایا کہ ڈاکٹرز ہسپتال نے تجاوزات قائم کر رکھی ہیں، ایک کنال کے رہائشی پلاٹ پر ڈاکٹرز ہسپتال تجارتی سرگرمیاں کرررہا ہے۔

اس موقع پر عدالت نے ڈاکٹرز ہسپتال انتظامیہ کو اپنے ریٹس پر نظر ثانی کرنے کا حکم دے دیا، ساتھ ہی عدالت نے ایل ڈی اے سے تمام ہسپتالوں کے باہر تجاوزات کی رپورٹ طلب کرلی۔

عدالت نے ماحولیاتی تحفظ کی ایجنسی کی اجازت کے بغیر تمعیر کیے گئے ہسپتالوں کے خلاف کارروائی کا حکم دے دیا اور ہسپتالوں کی انتظامیہ سے سہولیات اور قیمتوں سے متعلق تفصیلی رپورٹ طلب کرلی۔

اس کے ساتھ ساتھ عدالت نے پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن کو بھی ہسپتالوں سے متعلق رپورٹ دینے کا حکم دے دیا۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے مہنگے علاج، پارکنگ کی عدم دستیابی اور قوانین کے خلاف ہسپتالوں کی تعمیر پر اظہار برہمی کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ کسی کو مادر پدر آزادی نہیں دے سکتے، جو ہسپتال قوانین کے خلاف بنیں ہیں انہیں گرا دیا جائے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی عدالت نجی ہسپتالوں کے خلاف کارروائی میں مداخلت نہیں کرے گی، اس معاملے کو سپریم کورٹ دیکھ رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: چیف جسٹس نے ہسپتالوں کی صورتحال پر معائنہ ٹیم تشکیل دے دی

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا نجی ہسپتال صرف امیروں کے لیے بنائے جاتے ہیں، اس دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ہسپتالوں کا مقصد زیادہ سے زیادہ منافع کمانا نہیں ہونا چاہیے۔

دوران سماعت چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ لوگوں کے کپڑے نہ اتاریں، گدھ نہ بنیں، عمر ہسپتال میں عام بندہ جائے تو بیمار ہوجاتا ہے جبکہ نیشنل ہسپتال کے متعلق مشہور ہے کہ کہ وہاں مریض جائے تو واپس نہیں آتا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جو لوگ باہر ٹافی کا ایک ریپر تک نہیں پھینکتے، یہاں آکر ہسپتال بناتے ہیں، جہاں انسانوں کا علاج نہیں ہوسکتا۔

تبصرے (0) بند ہیں