پشاور ہائی کورٹ نے فوجی عدالت سے سزا پانے والے مجرم مجاہد کی سزائے موت پر عمل درآمد روکنے کا حکم دے دیا۔

ہائی کورٹ کے جسٹس اکرام اللہ خان اور ایوب خان پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے مجرم کے اہل خانہ کی جانب سے دائرنظر ثانی درخواست پر فوجی عدالت کے فیصلے کو معطل کرتے ہوئے وزارت داخلہ سے جواب اور ریکارڈ طلب کرلیا۔

واضح رہے کہ مجاہد کے والد یار ولی نے بیٹے کی سزائے موت کے خلاف ہائی کورٹ سے رجوع کررکھا تھا۔

درخواست میں مجاہد کے والد نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ ان کا بیٹا 8 سال سے لاپتہ تھا، درخواست میں ملٹری کورٹ کے پریذائڈنگ آفیسر، سیکرٹری داخلہ،سپرنٹنڈنٹ جیل کوہاٹ اور انٹرمٹنٹ سینٹر کے انچارچ کو فریق بنایا گیا تھا۔

مزید پڑھیں : فوجی عدالت سے مجرم قرار دیئے جانے والے ’لاپتہ شخص‘ کی سزائے موت معطل

سماعت کے دوران درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ مجاہد 8 سال سے لاپتہ تھا، صفائی پیش کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔

بعد ازاں آج (17 ستمبر) کو عدالت نے درخواست پر سماعت کرتے ہوئے ملزم مجاہد خان کی سزا پر عمل درآمد روکنے کے احکامات جاری کرتے ہوئے سیکرٹری داخلہ،سپرنٹنڈنٹ جیل کوہاٹ سے آئندہ سماعت پر جواب طلب کرلیا۔

ایک ماہ قبل آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے 15 خطرناک دہشت گردوں کی سزائے موت کی توثیق کی تھی،دہشت گردوں پر مجموعی طور پر 4 شہریوں اور 41 سیکیورٹی اہلکاروں کے قتل اور 103 کو زخمی کرنے کا الزام تھا، جبکہ ان کے قبضے سے اسلحہ و بارودی مواد بھی برآمد کیا گیا تھا۔

یاد رہے کہ رواں برس جولائی میں بھی پشاور ہائی کورٹ نے فوجی عدالت سے سزا پانے والے مجرم جنت کریم کی سزائے موت پر عمل درآمد روکنے کا حکم دیا تھا۔

فوجی عدالت کی جانب سے مجرم جنت کریم کو پارا چنار میں امام بارگاہ پر حملہ کرنے کے کیس میں سزا سنائی گئی تھی جبکہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی جانب سے اس کی توثیق کی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں : فوجی عدالت سے مجرم قرار پانے والے کی سزا معطل

قبل ازیں جولائی ہی میں پشاور ہائی کورٹ نے سماعت کے دوران فوجی عدالت سے سزائے موت پانے والے ملزم شاکر اللہ، جو ان کے اہل خانہ کے مطابق 2010 سے دیر کے علاقے سے لاپتہ تھے، کی سزا پر عمل در آمد سے روک دیا تھا۔

واضح رہے کہ 21 ویں آئینی ترمیم کے تحت قائم ہونے والی فوجی عدالتوں سے اب تک دہشت گردی میں ملوث کئی مجرموں کو سزائے موت سنائی جاچکی ہے، جن میں سے کئی افراد کو آرمی چیف کی جانب سے دی گئی توثیق کے بعد تختہ دار پر لٹکایا بھی جاچکا ہے۔

جنوری 2015 میں پارلیمنٹ نے 21 ویں آئینی ترمیم منظور کرکے فوجی عدالتوں کے دائرہ اختیار میں توسیع کرتے ہوئے دہشت گردوں کی فوجی عدالتوں میں سماعت کی منظوری دی تھی، جب کہ پہلے فوجی عدالتوں کو صرف فوجی اہلکاروں کے جرائم کی پاکستان آرمی ایکٹ (پی اے اے) 1952 کے تحت سماعت کا اختیار تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں