اسلام آباد: سینیٹ کمیٹی نے وزارت داخلہ کو ہدایت کی ہے کہ وہ سیکیورٹی اور پروٹوکول کے مابین فرق واضح کریں اور وزیراعظم عمران خان کے نہ چاہنے کے باوجود انہیں بلیو بک کے مطابق سیکیورٹی مہیا کرے۔

’بلیو بک‘ ایک ایسی دستاویز ہے جس میں پروٹوکول سے متعلق معاملات درج ہوتے ہیں، اس کے علاوہ وی وی آئی پی موومنٹ، خاص طور پر وزیر اعظم اور صدر مملکت کی حفاظت کا جامع پلان اور کسی بھی ہنگامی صورتحال یا مصیبت و آفات کی صورت میں اپنائی جانے والی حکمتِ عملی اور حساس نوعیت کی تفصیلات درج ہوتی ہیں۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے اجلاس میں کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر رحمٰن ملک نے وزیر اعظم سمیت 5 سیاستدانوں کو جاری کیے گئے خطرے کے الرٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بلیو بک پر مکمل طور پر عمل کیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: سادگی کے دعوے اور پی ٹی آئی حکومت کا ہوائی سفر

انہوں نے سیکریٹری داخلہ یوسف نسیم کھوکھر کو ہدایت کی کہ چاہے کوئی کچھ بھی کہے، آپ وزیر اعظم اور دیگر سیاستدانوں کے لیے خطرے کو مدِنظر رکھتے ہوئے حفاظتی اقدامات کریں۔

انہوں نے خاص طور پر کہا کہ ساری دنیا میں یہی ہوتا ہے لہٰذا اس معاملے میں میڈیا کے کہنے کی پرواہ نہ کریں۔

اس موقع پر پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر جاوید عباسی کمیٹی کے واحد رکن تھے جنہوں نے وزیر اعظم کو سیکیورٹی فراہم کرنے کے خیال کی مخالفت کی، ان کا کہنا تھا کہ ’انہیں ان کی پارٹی کی پالیسی پر عمل کرنے دیا جائے‘۔

مزید پڑھیں: سادگی مہم: وزیر اعظم ہاؤس کی 102 میں سے 61 گاڑیوں کی نیلامی مکمل

اس کے ساتھ انہوں نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو بلنگ و بانگ دعووں کے برعکس طرزِ عمل اختیار کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا۔

ان کا کہنا تھا کہ صدر عارف علوی کو پروٹوکول کے بغیر عام مسافروں کی طرح اسلام آباد سے کراچی سفر کرتے ہوئے دکھایا گیا۔

لیکن دوسری جانب معاملات مختلف تھے اور ان کے کراچی پہنچنے پر درجنوں گاڑیاں انہیں غیر معمولی پروٹوکول دینے کے لیے موجود تھیں۔

حفاظتی معاملات کے علاوہ سینیٹ کمیٹی نے متفقہ طور پر ایک قرارداد منظور کی، جس میں پاکستان کے خلاف منی لانڈرنگ کے الزامات پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ گورنرہاؤس، سرکاری پروٹوکول اور عوام

کمیٹی اراکین کا کہنا تھا کہ منی لانڈرنگ، امریکی افواج کے سامنے منشیات کی صورت میں افغانستان سے کی جاتی ہے جو دنیا بھر کے لیے منشیات کی پیداوار اور ترسیل کا ذریعہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کے اکثریتی علاقے امریکی افواج کے زیر اثر ہیں جنہیں پاکستان کے خلاف بے بنیاد الزامات لگانے کے بجائے منشیات کی پیداوار اور ترسیل کی روک تھام کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے چاہیے۔

اس کے علاوہ کمیٹی کا یہ بھی کہنا تھا کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کو بھارت کے طرزِ عمل پر بھی نظرِ ثانی کرنی چاہیے، جہاں راشٹریہ سیوک سنگھ (آر ایس ایس)، ایک عسکری تنظیم جو پاکستان اور کشمیر کے خلاف دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث ہے، کو مالی تعاون فراہم کیا جاتا ہے۔

مزید پڑھیں: وزیر اعلیٰ پنجاب کا آدھا پروٹوکول استعمال کرنے کا اعلان

اجلاس کے دوران کراچی ایئر پورٹ پر کام کرنے والی الحدید انٹرنیشنل لمیٹڈ کے غیر قانونی کام کے خلاف موصول ہونے والی درخواست پر بھی غور کیا گیا۔

کمیٹی نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو ہدایت کی کہ تحقیقات کی جائیں کہ غیر ملکی ڈائریکٹرز پر مشتمل کمپنی کو کام کرنے کی اجازت کس طرح دی گئی اور ایک چھوٹی سی کینٹین سے آغاز کرنے والی کراچی ایئرپورٹ کے حساس مقامات پر غیر معمولی خدمات فراہم کرنے والی کمپنی کیسے بنی۔


یہ خبر 18 ستمبر 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں