اسلام آباد: وزیر خزانہ اسد عمر نے مالی سال 19-2018 کے آئندہ 9 ماہ کے لیے بجٹ ترامیم پیش کرتے ہوئے لگژری گاڑیوں، مہنگے موبائل فونز اور سگریٹ پر درآمدی ڈیوٹی میں اضافہ کردیا۔

اسپیکر اسد قیصر کی زیر صدارت قومی اسمبلی کا اجلاس منعقد ہوا جس میں انتخابی دھاندلی کے حوالے سے پیش کی گئی تحریک منظور کی گئی، بعد ازاں وزیر خزانہ اسد عمر نے خطاب کرتے ہوئے بجٹ کے حوالے سے فنانس بل پیش کرنے کی وجوہات سے آگاہ کیا۔

مزید پڑھیں: پاکستان کا بجٹ خسارہ 6.6 فیصد تک پہنچ گیا

وزیر خزانہ اسد عمر کا کہنا تھا کہ ہمارا ہدف معیشت کو استحکام اور روزگار دینا ہے، برآمدات میں اضافہ کرنا ہے تاکہ قرضوں پر انحصار نہ کرنا پڑے۔

ایوان زیریں میں بجٹ تجاویز پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اراکین جو بھی تجاویز پیش کریں گے، انہیں سنیں گے بھی اور مشاورت بھی کریں گے۔

اہم نکات

  • برآمدی اشیاء پر ریگولیٹری ڈیوٹی ختم

  • گاڑیاں، سیگریٹ، موبائل فون مہنگے

  • نان فائلرز کے لیے ٹیکس میں اضافہ

  • پینشن میں 10 فیصد اضافہ

  • کراچی کے لیے خصوصی فنڈز

  • کم آمدنی والوں پر ٹیکس استثنیٰ برقرار

  • وزریر اعظم، وزرا اور گورنرز بھی ٹیکس دیں گے


ای او بی آئی پینشنرز کی پینشن میں 10 فیصد اضافہ

وزیر خزانہ نے اپنی بجٹ تقریر میں بتایا کہ ای او بی آئی رجسٹرڈ پینشنز میں 85 فیصد غریب ترین ہیں، جن کی کم سے کم ترین پینشن کی مد میں فوری طور پر 10 فیصد اضافہ کیا جائے گا تاکہ انہیں کچھ ریلیف مل سکے۔

اسد عمر نے بتایا کہ ہم نے پہلا فیصلہ یہ کیا کہ یوریا کی ترسیل بڑھانے کے لیے 1 لاکھ ٹن کھاد درآمد کی جائے اور اس میں سبسڈی دی جائے، اس کے ساتھ مقامی پیداوار بڑھانے کے لیے گیس بھی فراہم کی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ اولین طور پر خیبر پختونخوا میں متعارف کروائے گئے صحت کارڈ کو فوری طور پر وفاقی علاقوں، اسلام آباد اور فاٹا کے حصوں میں شروع کیا جائے گا اور 5 لاکھ 40 ہزار روپے فی خاندان صحت انشورنس دی جائے گی، وزیر اعظم نے پنجاب کو ہدایت کی ہے کہ اسے پنجاب کے بجٹ میں بھی شامل کیا جائے۔

انہوں نے بتایا کہ مزدوروں کے گھروں کی تعمیر کے لیے فوری طور پر ساڑھے 4 ارب روپے جاری کیے جائیں گے اور اس کے بعد 10 ہزار گھروں پر کام کرنے کی منظوری دی جائے گی۔

پیٹرولیم لیوی پر اضافہ ختم

وزیر خزانہ نے بتایا کہ گزشتہ بجٹ میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ پیٹرولیم لیوی پر اضافہ کیا جائے گا لیکن ہمارے خیال میں یہ متوسط طبقے کے ساتھ ظلم ہے، لہٰذا ہم پیٹرولیم لیوی پر اضافہ نہیں کریں گے۔

برآمدات کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ برآمدی صنعتوں میں استعمال ہونے والی 82 ٹیرف لائن پر ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کرنے اور 5 ارب روپے کا ریلیف دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز ہم نے برآمدی صنعتوں کو 44 ارب روپے کا فائدہ دیا کیونکہ ہمارے 2 ہدف ہیں کہ غریب کو بچانا ہے اور برآمد کنندگان کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنا ہے۔

وفاقی وزیر خزانہ نے بتایا ہم 5 ایسے اقدامات کرنے جارہے ہیں جن سے ایک سو 83 ارب روپے کی آمدنی متوقع ہوگی جبکہ اس میں سے 92 ارب روپے جدید ٹیکنالوجی اور انتظامی طریقوں سے استعمال کرکے حاصل کرسکتے ہیں اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے اس چیلینج کو قبول کیا ہے۔

نان فائلرز کیلئے ٹیکس کی شرح میں اضافہ

اسد عمر نے کہا کہ نان فائلرز کے لیے بینکنگ ٹرانزیکشن پر 0.4 فیصد ٹیکس کو 0.6 کیا جارہا ہے لیکن نان فائلرز کو ایک چھوٹ دی جارہی کہ وہ اب ملک میں جائیداد خرید سکیں گے۔

سگریٹ، موبائل اور لگژری گاڑیوں پر ڈیوٹی میں اضافہ

وزیر خزانہ نے بتایا کہ دنیا میں سب سے سستا ترین سگریٹ پاکستان میں ملتا ہے اور یہاں ایک ڈالر والا پیکٹ بیرون ملک 7 سے 8 ڈالر تک کا فروخت ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سگریٹ پر ٹیکس میں اضافہ کیا جارہا ہے اور اس کی اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے بھی اقدامات کیے جارہے ہیں۔

بجٹ تجاویز میں انہوں نے بتایا کہ صاحب ثروت افراد پر کچھ ٹیکس لگانے کا فیصلہ کیا ہے اور 1800 سی سی گاڑی پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی 10 سے بڑھا کر 20 فیصد کردی گئی ہے، اس طرح کھانے پینے کی مہنگی درآمدی اشیاء پر بھی ٹیکس میں اضافہ کیا گیا ہے۔

اسد عمر نے کہا کہ مہنگے موبائل فونز پر ڈیوٹی بڑھائی گئی ہے جبکہ ان کی اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے بھی اقدامات کیے جائیں گے۔

کم آمدنی والے طبقے پر ٹیکس استثنیٰ برقرار

وزیر خزانہ نے بتایا کہ گزشتہ حکومت نے بجٹ میں ٹیکس چھوٹ کے حوالے سے جو اقدامات کیے تھے، ان میں کچھ کو برقرار رکھا گیا ہے اور سالانہ 12 لاکھ روپے تک کی آمدنی والے فرد پر ٹیکس کی پرانی شرح کو برقرار رکھاہے۔

12 لاکھ سے 24 لاکھ روپے تک آمدنی والے افراد کو ٹیکس کی شرح میں جو چھوٹ دی گئی تھی، اسے بھی برقرار رکھا ہے، تاہم باقی بچ جانے والے 70 ہزار افراد پر ٹیکس ریٹ میں اضافہ کیا ہے لیکن ان کے ریٹ گزشتہ سال کے مقابلے میں کم ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ ان 70 ہزار افراد میں تنخواہ دار افراد کے لیے 25 فیصد جبکہ دیگر کے لیے 29 فیصد ٹیکس رکھا گیا ہے لیکن کوئی پاکستانی ایسا نہیں ہے جس کا ٹیکس ریٹ گزشتہ برس سے کم نہ ہو۔

وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ایک جانب ہم صاحب ثروت افراد سے ملکی معیشت میں تعاون کی درخواست کررہے ہیں تو دوسری جانب ہم خود حکومتی اراکین سے اس کی شروعات کررہے ہیں اور وزیراعظم، وزرا اور گورنرز کے لیے جن مراعات پر ٹیکس استثنیٰ تھا ان پر اب ٹیکس عائد کیا جارہا ہے۔

ٹیکس سلیب

وفاقی حکومت کی جانب سے ٹیکس سلیب کو 8 حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔

بجٹ تجاویز کے مطابق سالانہ 4 لاکھ روپے تک آمدنی والے افراد کو ٹیکس سے استثنیٰ ہوگا۔

4 لاکھ سے 8 لاکھ روپے سالانہ آمدنی والے کو ایک ہزار روپے ٹیکس دینا ہوگا۔

8 لاکھ سے 12 لاکھ سالانہ آمدن والوں کو 2 ہزار روپے ٹیکس کی مد میں ادا کرنے ہوں گے۔

12 لاکھ سے 24 لاکھ روپے تک کی سالانہ آمدن والے فرد پر 5 فیصد ٹیکس کا اطلاق ہوگا۔

اسی طرح 24 لاکھ سے 30 لاکھ روپے آمدنی پر ٹیکس کی شرح 15 فیصد جبکہ اضافی 60 ہزار روپے فکسڈ ٹیکس دینا ہوگا۔

30 سے 40 لاکھ روپے آمدنی پر 20 فیصد ٹیکس جبکہ ڈیڑھ لاکھ روپے اضافی ٹیکس دینا ہوگا۔

40 سے 50 لاکھ روپے سالانہ آمدنی پر 25 فیصد جبکہ 3 لاکھ 50 ہزار روپے اضافی ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔

50 لاکھ روپے سالانہ سے زائد آمدنی پر 6 لاکھ روپے ٹیکس جبکہ 29 فیصد اضافی ٹیکس بھی دینا ہوگا۔

کراچی کے لیے 50 ارب روپے ترقیاتی فنڈ مختص

ترقیاتی پروگرام کے حوالے سے وزیر خزانہ نے بتایا کہ سی پیک کے کسی پروگرام میں ایک روپے کی بھی کمی نہیں آنے دیں گے اور اس کا مکمل تحفظ کریں گے، اسی طرح بڑے ڈیمز کی تعمیر کے لیے کوئی کمی نہیں آئے گی اور کوشش ہوگی کہ ان ڈیمز کو 5 سے 6 سال میں مکمل کریں۔

انہوں نے بتایا کہ گزشتہ برس ترقیاتی منصوبوں پر 6 سو 61 ارب روپے خرچ کیے گئے تھے، جسے اس سال بڑھا کر 7 سو 25 ارب روپے کردیا ہے، جس کے لیے مالیاتی اصلاحات کی ضرورت ہے۔

اسد عمر نے کہا کہ 7 سو 25 ارب میں سے 50 ارب کراچی کی ترقی کے لیے مختص کیے گئے ہیں، یہ تمام کام پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ذریعے کیے جائیں گے اور بجٹ پر اس کا بوجھ نہیں پڑے گا۔

اپنی تقریر میں انہوں نے کہا کہ پاکستان کو مشکل حالات کا سامنا ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ 10 سال پہلے بھی مشکل حالات تھے، گزشتہ 30 برس میں دنیا ہم سے بہت آگے جاچکی ہے لیکن من حیث القوم ہم نے مختلف طریقے سے کام کرنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جو اچھے کام ہوئے ہم ان کی حمایت کریں گے لیکن اس مشکل وقت سے نکلنے کے لیے ہمیں تبدیلی کی ضرورت ہے اور میرا ایمان ہے کہ یہ ملک مسلمانوں نے بڑی قربانیوں سے حاصل کیا، قائد اعظم کی قیادت اور علامہ اقبال کا خواب تھا، یہ ملک اللہ تعالیٰ کی دین ہے اور اسی لیے اس ملک کا قیام 27 ویں شب کو ہوا، لہٰذا اس ملک نے ترقی کرنی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس ملک کی ترقی میں سب شراکت دار ہوں گے لیکن یہ پوری قوم کی جدوجہد ہوگی اور انشاء اللہ پاکستان ایسا ملک بننے جارہا ہے کہ نہ صرف ہم بلکہ دنیا بھی اس پر فخر کرے گی۔

خسارے کی صورتحال

وزیر خزانہ نے بجٹ تقریر میں خسارے کی صورتحال کے بارے میں بتایا کہ گزشتہ برس بجٹ بناتے وقت اس میں خسارے کا تخمینہ 4.1 فیصد تھا، 18-2017 کے اختتام پر یہ خسارہ حقیقت میں 6.6 فیصد تک پہنچ گیا۔

اسد عمر کا کہنا تھا کہ 6.6 کا مقابلہ کریں تو 2013 میں جب مسلم لیگ(ن) کی حکومت آئی تو بجٹ خسارہ 8.2 فیصد تھا، جس میں 1.6 فیصد گردشی قرضوں کی ادائیگی تھی اور اگر اس میں سے گردشی قرضوں کی ادائیگی کو نکال دیا جائے تو 6.6 فیصد کا خسارہ تھا لیکن جب 2018 میں مسلم لیگ(ن) کی حکومت ختم ہوئی تب بھی یہ خسارہ اپنی مقررہ شرح پر ہی تھا۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ 6.6 فیصد خسارہ 22 کھرب 93 ارب روپے تھا اور یہ تمام خسارہ نہیں تھا بلکہ بجٹ سے باہر بجلی کے شعبے میں جو گزشتہ برس خسارہ ہوا وہ ساڑھے 4سو ارب جبکہ گیس کے شعبے میں 100 ارب روپے تک کا خسارہ ہوا۔

یہ بھی پڑھیں: مفتاح اسمٰعیل کا بجٹ کیا نئے مالیاتی بحرانوں کو جنم دے گا؟

انہوں نے کہا کہ خطرناک صورتحال یہ ہے کہ جس طریقے سے چل رہے ہیں، اسی طرح چلتے رہے تو خسارہ 7.2 فیصد یعنی 29 کھرب روپے تک پہنچ سکتا ہے جو کسی صورت متحمل نہیں ہوسکتا۔

اسد عمر کا کہنا تھا کہ ملک کی بیرونی صورتحال اس سے زیادہ خطرناک ہے، حقیقت یہ ہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 13-2012 میں ڈھائی ارب ڈالر تھا جو گزشتہ سال تک 18.1 ارب ڈالر تک پہنچ گیا، یعنی ساڑھے 7 گناہ خسارہ بڑھ گیا ، جس کے نتیجے میں بیرونی قرضے 60 ارب ڈالر سے بڑھ کر 95 ارب ڈالر تک پہنچ گئے اور ان قرضوں میں 34 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا۔

انہوں نے کہا کہ قرضے لینے کے باوجود ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے گر رہے ہیں اور اس وقت ہمارے پاس 2 ماہ کی برآمدات کے بھی ذخائر نہیں بچے ہیں۔

اسد عمر نے مزید کہا کہ ہم بالکل دہلیز پر کھڑے ہوئے ہیں اور صورتحال ایسی ہے کہ اگر فیصلے نہ کیے تو بدترین صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ چند ماہ کے اندر ڈالر میں 20 روپے تک اضافہ ہوا، خدانخواستہ اگر یہ ذخائر مزید گرے تو روپے کی قدر مزید کم ہوسکتی ہے اور مہنگائی میں بے پناہ اضافہ ہوسکتا ہے۔

مزید پڑھیں: ‘تنخواہ دار ملازمین کے لیے بجٹ میں کوئی ریلیف نہیں‘

وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ روپے کی قدر کم ہونے سے گیس، تیل اور بجلی مہنگی ہوتی ہے، اس کے علاوہ عام انسان کی زندگی کی تمام چیزیں براہ راست اثر انداز ہوتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 5 سال قبل ملک کا قرضی 16 ہزار ارب روپے تھا جو اس وقت 28 ہزار ارب روپے سے تجاوز کر گیا ہے جبکہ اس میں 2 ہزار ارب روپے شامل نہیں ہیں اور یہ وہ روپے ہیں جو ہمیں نظر نہیں آرہے۔

اپنے خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ پی آئی اے اور اسٹیل ملز کی جو صورتحال ہے وہ سب کے سامنے ہے، ان اداروں پر جو قرضے ہیں وہ وفاق نے ادا کرنے ہیں لیکن سب سے زیادہ تکلیف دہ صورتحال یہ ہے کہ ورکر ویلفیئر بورڈ کے فنڈز کا بھی 40 ارب روپے سے زائد وفاق نے روکا ہوا ہے، جس کی وجہ سے مزدوروں کے 8 ہزار 2 سو گھروں کی تعمیر رکی ہوئی ہے اور مزدوروں کے بچوں کی فیسوں کی ادائیگی تک نہیں ہورہی۔

انہوں نے کہا کہ اسٹیل ملز کی یہ صورتحال ہے کہ وہاں بیواؤں کی پنشن بند ہے اور گزشتہ برس 2 خودکشیاں بھی ہوئی ہیں اور صورتحال اتنی بری ہے کہ لوگ خودکشیوں پر مجبور ہیں۔

وفاقی وزیر خزانہ نے بتایا کہ گزشتہ بجٹ اور آج کی تجاویز میں فرق یہ ہے کہ وفاق کے ریونیوز جو بجٹ 19-2018 میں شامل کیے گئے تھے ان میں کم سے کم 3 سو 50 ارب روپے کی کمی متوقع ہے کیونکہ ان آمدنی کو 3 سو 50 ارب روپے سے زائد دکھایا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے خیال میں جو اخراجات بجٹ میں دکھائے گئے تھے ان سے 2 سو 50 ارب روپے زیادہ ہوں گے اور 2 سو 86 ارب روپے کا صوبوں کا سرپلس دکھایا گیا جبکہ حقیقت میں گزشتہ مالی سال میں 18 ارب روپے کا صوبوں کا خسارہ تھا۔

یہ بھی پڑھیں: آئندہ مالی سال کے بجٹ میں کیا دیکھنے کی ضرورت ہے؟

ان کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا واحد صوبہ تھا جس نے 34 ارب روپے کا سرپلس استعمال کیا جبکہ پنجاب نے سب سے زیادہ خسارہ کیا۔

انہوں نے بتایا کہ بجٹ میں دکھائے گئے خسارے اور حقیقت میں تقریباً 900 ارب روپے کا فرق ہے اور اگر اقدامات نہ لیں تو بجٹ کا کل خسارہ 2780 ارب روپے تک ہوجائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ مشکل حالات ہیں، ہمیں چادر دیکھ کر پیر پھیلانے ہوں گے جس میں 2 چیزیں ذہن میں رکھنی ہوں گی کہ غریب پہلے ہی مشکلات کا شکار ہیں، چناچہ یہ بوجھ امیر لوگوں پر ڈالنا ہے، جس قدر ممکن ہوسکے ہم نے غریب کو بچانا ہے اور اس مسئلے سے کس طرح نکلا جائے۔

انہوں نے کہا کہ یہ بہتری صرف آئی ایم ایف سے نہیں آسکتی، مشکلات جب دور ہوں گی جب ہماری صنعت مضبوط ہوگی، روزگار پیدا ہوں گے، زراعت ترقی کرے گی اور برآمدات بڑھے گی۔

وزیر خزانہ کی جانب سے بجٹ تجاویز پیش کرنے کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے اسمبلی کی کارروائی 24 ستمبر تک ملتوی کردی، اگلے اجلاس میں پیش کردہ بجٹ تجاویز پر بحث کی جائے گی۔

وزیر خزانہ کی پریس کانفرنس

قومی اسمبلی میں بجٹ تجاویز پیش کرنے کے بعد وزیر خزانہ نے پریس کانفرنس میں صحافیوں کی جانب سے ٹیکس چوروں کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ ہمیں حلف لیے ہوئے ساڑھے 3 ہفتے ہی ہوئے ہیں لیکن ہم نے چوروں سے ٹیکس وصولی کرتے ہوئے 92 ارب روپے کی رقم خزانے میں شامل کردی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایسے لوگوں کے خلاف ایف بی آر کا میٹر چلنا شروع ہوگیا ہے، ہمیں فوری اقدامات کرنے ہیں اگر ایسا نہ کیا تو ہم اپنا ہدف حاصل نہیں کرسکیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ جس طرح سابق حکومت نے بجٹ میں 12 لاکھ روپے سالانہ آمدنی والے افراد کو ٹیکس سے استثنیٰ دیتے ہوئے ایک سے 2 ہزار روپے کا ٹوکن ٹیکس عائد کیا تھا اسے برقرار رکھا گیا ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔

وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ 2 لاکھ روپے ماہانہ کمانے والوں پر معمولی ٹیکس کا فیصلہ برقرار رکھا گیا البتہ 2 لاکھ روپے ماہانہ سے زائد کمانے والوں پر ٹیکس کی شرح میں معمولی اضافہ کیا گیا اور پورے ملک میں ان کی افراد کی تعداد محض 70 ہزار ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومتی عہدیداروں کو حاصل ٹیکس استثنیٰ کا مقصد ریونیو حاصل کرنا نہیں ہے بلکہ ملکی معیشت کی خراب صورتحال ہے، اگر ہم صاحب ثروت لوگوں سے تعاون طلب کررہے ہیں تو ضروری ہے کہ سب سے پہلے ہم خود اپنے آپ کو اس کے لیے پیش کریں۔

گاڑیوں اور جائیداد کو خریدنے کے لیے ٹیکس فائلرز کی شرط ختم کرنے کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے اسد عمر کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے مزید ٹیکس اصلاحات بھی کی جائیں گی۔

غریب اور بے گھر خواتین کے حوالے سے بجٹ میں کیے اقدامات کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ہم نے غریب طبقے کے مسائل کو ایک ساتھ مدِ نظر رکھا ہے اور اس سلسلے میں مزدورں کے لیے گھروں کی تعمیر کے لیے فنڈ جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

اسد عمر نے کہا کہ ہم نے ہرجگہ غریبوں کی بہتری کو مدِ نظر رکھا ہے جس کے لیے ہم نے ایل پی جی کے سیلنڈر پر 30 فیصد ٹیکس کو کم کر کے 10 فیصد کیا جس سے فی سیلنڈر قیمت میں 200 روپے کی چھوٹ ملے گی۔

تبصرے (0) بند ہیں