اسلام آباد: سپریم کورٹ نے جسٹس (ر) اقبال حمید الرحمٰن کی پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹی ٹیوٹ (پی کے ایل آئی) کے معاملات چلانے والی ایڈہاک کمیٹی کے سربراہ کے طور پر تقرری کا حکم دے دیا۔

عدالت نے کمیٹی کے دیگر اراکین میں پروفیسر ڈاکٹر جواد ساجد، پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے سابق پروفیسر انجینئر لیفٹیننٹ جنرل (ر) شاہد ریاض، نیپرا کے رکن سیف اللہ چھٹہ اور سابق سیکریٹری خسرو پرویز خان کو شامل کرنے کی ہدایت بھی کی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عدالت عظمیٰ کے علم میں یہ بات آئی تھی کہ پی کے ایل آئی میں ملازمین کی تنخواہوں پر ماہانہ 10 کروڑ روپے خرچ کیے جانے کے باوجود ہسپتال میں ایک بھی گردے یا جگر کی پیوند کاری نہیں کی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: پی کے ایل آئی کیس: 'حکومت کمیٹی کو 2 دن میں ریکارڈ فراہم کرے'

رواں برس جولائی میں سپریم کورٹ نے ادارے کے سربراہ ڈاکٹر سعید اختر کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں شامل کرنے کا حکم دیا تھا۔

عدالتی احکامات کے مطابق کمیٹی فوری طور پر پی کے ایل آئی کا انتظام سنبھال کر جلد از جلد ہسپتال کے معاملات میں حائل رکاوٹیں دور کر کے، آلات اور دیگر ضروری اشیا نصب کر کے اور قابلیت کی بنیاد پر متعلقہ ملازمین کو ملازمت دے کر ہسپتال کو مکمل طور پر فعال کرے گی۔

اس کے علاوہ کمیٹی اس بات کو بھی یقینی بنائے گی کہ ہسپتال میں رعایتی نرخوں پر بہترین علاج اور آپریشن کی سہولیات فراہم کی جائیں جو اس منصوبے کا حقیقی مقصد تھا۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ کا پی کے ایل آئی میں 20 ارب اخراجات کا فرانزک آڈٹ کا حکم

عدالت نے اس بات کا بھی فیصلہ کیا کہ کمیٹی میں شامل اراکین کو ان کی خدمات کے عوض ماہانہ معاوضہ دیا جائے جسے 4 ہفتوں بعد ہونے والی سماعت میں طے کیا جائے گا۔

سپریم کورٹ نے پی کے ایل آئی کے بورڈ کو بھی معطل کردیا۔

عدالت نے پی کے ایل آئی کا انتظام، اثاثے، جائیدادیں، اکاؤنٹس اور دیگر تمام متعلقہ کتابیں اور ریکارڈ 3 سے 5 دن میں ایڈہاک کمیٹی کے سربراہ کے حوالے کرنے کا حکم دیا۔

یہ بھی پڑھیں: چیف جسٹس نے پی کے ایل آئی کے بورڈ آف گورنر میں شہباز شریف کی شمولیت کا نوٹس لے لیا

کمیٹی 30 دن میں اپنی رپورٹ جمع کروانی کی پابند ہوگی، اس سلسلے میں کمیٹی کے چیئرمین جتنے اجلاس طلب کرنا چاہیں کرسکتے ہیں لیکن قواعد کے مطابق وہ ہر 2 ہفتے میں ایک اجلاس بلانے کے پابند ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں