اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں سابق وزیرِ اعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کی سزاؤں کو معطل کرتے ہوئے ان کی رہائی کا حکم دے دیا۔

جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس میاں گل حسن پر مشتمل ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے سزا معطلی کی درخواست منظور کرتے ہوئے مختصر فیصلہ سنایا۔

فیصلے میں کہا گیا کہ درخواست دہندگان کی اپیلوں پر فیصلہ آنے تک سزائیں معطل رہیں گی جبکہ سزا معطلی کی وجوہات تفصیلی فیصلے میں بتائی جائیں گی۔

نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو 5، 5 لاکھ روپے کے مچلکے جمع کرانے کا حکم بھی دیا گیا۔

ذرائع نے بتایا کہ اڈیالہ جیل میں قید سابق وزیراعظم میاں نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد محمد صفدر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے سے آگاہ کردیا گیا، جس کے بعد تینوں مجرمان نے آسمان کی طرف منہ کرکے اللہ کا شکر ادا کیا۔

قبل ازیں نیب کے اسپیشل پراسیکیوٹر اکرم قریشی اور ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیب جہانزیب بھروانہ اپنے دلائل مکمل کیے۔

نیب پراسیکیوٹر اکرم قریشی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نیب نے شواہد کے ساتھ ثابت کیا کہ فلیٹس ملزمان کی تحویل میں تھے۔

انہوں نے کہا کہ 1993 میں مریم نواز 18، حسین نواز 20 اور حسن نواز 17 سال کے تھے، مریم نواز نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ ان کی پاکستان اور بیرون ملک کوئی جائیداد نہیں اور وہ والد کے ساتھ رہتی ہیں، جبکہ بی وی آئی کے خطوط سے ظاہر ہوتا ہے کہ مریم نواز نیلسن اور نیسکال کی بینشفل آنر ہیں جو کہ ایون فیلڈ اپارٹمنٹ کی مالک ہے۔

جسٹس میاں گل حسن نے سوال اٹھایا کہ اگر اصل مالک نواز شریف ہیں تو مریم نواز کو 9 (اے)(5) کے تحت سزا کیوں سنائی گئی۔

ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیب جہانزیب بھروانہ نے بتایا کہ مریم نواز نے جعلی دستاویزات کے ذریعے اثاثے چھپانے میں نوازشریف کی معاونت کی، اس طرح کے معاملات میں مرکزی جرم کے تحت سزا سنائی جاتی ہے اس کا الگ سے جرم نہیں ہوتا۔

عدالت نے سوال کیا کہ نواز شریف کا ایون فیلڈ اپارٹمنٹس سے تعلق کیسے ثابت ہوتا ہے۔

نیب کی طرف سے نواز شریف کے بچوں کی کمپنیوں کا چارٹ پیش کیا گیا اور بتایا گیا کہ چارٹ میں ظاہر کی گئی کمپنیاں ایک دوسرے کو فنڈنگ کر رہی تھی، ان ہی میں سے ایک کمپنی 'کیپٹل ایف زیڈ ای' میں نواز شریف چیئرمین تھے۔

یہ بھی پڑھیں: ایون فیلڈ فیصلے کے خلاف درخواست، تاخیری حربے استعمال کرنے پر نیب کو جرمانہ

ان کمپنیوں میں ایک کومبر بھی ہے جس کا ذکر مریم نواز کی طرف سے جمع کرائی گئی ٹرسٹ ڈیڈ میں ہے، اس طرح نواز شریف کا فلیٹس سے تعلق نکلتا ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا کہ کوئی کیس بتا دیں جس میں بار ثبوت ملزمان پر ڈالا گیا ہو اور کیا طارق عزیز اور غنی الرحمٰن کیس میں سپریم کورٹ کی طرف سے اسٹیلڈ پرنسپل کو اس کیس میں بھی فالو کیا جائے گا۔

نیب پراسیکیوشن کی طرف سے بتایا گیا کہ حاکم علی زرداری کیس اور احمد ریاض شیخ کے کیس میں بھی یہی ہوا ہے، حاکم علی زرداری اور احمد ریاض شیخ میں بار ثبوت ملزمان پر ڈالا گیا، طارق عزیز اور غنی الرحمان کیس میں ملزمان نے اپنے معلوم ذرائع آمدن بتانے کے لیے چار گواہ پیش کیے، یہ کیس مختلف ہے اس میں ملزمان کی طرف سے کوئی گواہ پیش نہیں کیا گیا۔

نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے درخواستوں کے قابل سماعت ہونے سے متعلق تحریری دلائل بھی جمع کرائے۔

فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا گیا تھا۔

پس منظر

خیال رہے کہ ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا کے خلاف سابق وزیرِ اعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور کیپٹن (ر) محمد صفدر کی جانب سے اپنی سزاؤں کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیلیں دائر کی گئیں تھیں جنہیں 16 جولائی کو سماعت کے لیے مقرر کردیا گیا تھا۔

اس سے قبل 17 اگست کو سزا معطلی کی درخواستوں میں تاخیری حربے استعمال کرنے پر اسلام آباد ہائیکورٹ نے بھی قومی احتساب بیورو کو 10 ہزار روپے جرمانہ کیا تھا۔

واضح رہے کہ 20 اگست کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے مجرمان کی جانب سے سزا کے خلاف دائر کی گئیں اپیلوں پر سزا معطلی کا فیصلہ مؤخر کردیا تھا۔

عدالتی چھٹیوں کے بعد اس کیس کی سماعت کرنے والا بینچ ٹوٹ گیا تھا، جس کے بعد جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں نیا بینچ تشکیل دیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: نواز شریف،مریم نواز،محمد صفدر کی سزا معطلی کی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ

گزشتہ روز سماعت کے دوران عدالت نے ریمارکس دیے تھے کہ اگر پروسیکیوٹر نے دلائل مکمل نہیں بھی کیے تب بھی مجرمان کی درخواستوں پر فیصلہ سنا دیا جائے گا۔

واضح رہے کہ 15 ستمبر کو نیب نے ہائی کورٹ کو ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کی سزا معطل کرنے سے روکنے کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔

نیب کی جانب سے دائر کی جانے والی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ ہائی کورٹ مجرمان کی سزا معطل نہیں کرسکتی، جبکہ عدالتِ عالیہ میں استغاثہ کو نوٹس جاری کیے بغیر سماعت جاری ہے۔

درخواست کے مطابق نیب کا موقف لیے بغیر شریف فیملی کی سزا معطل نہیں کی جاسکتی جبکہ ہائی کورٹ کو سزا معطلی کا اختیار بھی نہیں ہے، اور استدعا کی کہ ہائی کورٹ کو درخواستوں پر فیصلہ کرنے سے روکا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: ایون فیلڈ ریفرنس سزا معطلی کی درخواستوں کےخلاف نیب کی درخواست دائر

بعدِ ازاں 17 ستمبر کو سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو ایون فیلڈ ریفرنس کی سزا کے خلاف درخواست کی سماعت روکنے کے لیے نیب کی دائر کردہ اپیل مسترد کردی تھی۔

دورانِ سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ یہ ہائی کورٹ کی مرضی ہے کہ وہ سزاوں کے خلاف اپیل پہلے سنے یا سزاؤں کی معطلی کی درخواست سنے، عدالت عظمٰی ہائی کورٹ کے اس اختیار میں مداخلت نہیں کرسکتی۔

بعد ازاں عدالت نے غیر ضروری درخواست دینے پر نیب پر 20 ہزار روپے کا جرمانہ بھی کردیا اور جرمانے کی رقم ڈیم فنڈ میں جمع کروانے کی ہدایت کی۔

خیال رہے کہ شریف خاندان کے وکلاء کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں شریف خاندان کے خلاف احتساب عدالت کے ایون فیلڈ ریفرنس سے متعلق فیصلے کو معطل کرنے اور نواز شریف کے خلاف 2 زیر سماعت ریفرنسز کو دوسرے جج کو منتقل کرنے سے متعلق 3 اپیلیں دائر کی گئیں تھیں۔

مزید پڑھیں: نواز، مریم اور صفدر کی ایون فیلڈ ریفرنس فیصلے کے خلاف اپیلوں کی سماعت مقرر

یاد رہے کہ 6 جولائی کو شریف خاندان کے خلاف نیب کی جانب سے دائر ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے اسلام آباد کی احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نواز شریف کو 10 سال، ان کی صاحبزادی مریم نواز کو 7 سال جبکہ داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کو ایک سال قید بامشقت کی سزا سنائی تھی۔

احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے نواز شریف پر 80 لاکھ پاؤنڈ (ایک ارب 10 کروڑ روپے سے زائد) اور مریم نواز پر 20 لاکھ پاؤنڈ (30 کروڑ روپے سے زائد) جرمانہ بھی عائد کیا تھا۔

اس کے علاوہ احتساب عدالت نے شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے لندن میں قائم ایون پراپرٹی ضبط کرنے کا حکم بھی دیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

AHMED BAJWA Sep 19, 2018 04:01pm
Very unfortunate decision. In our country justice and laws are only for poor.