اسلام آباد: وزارت اطلاعات پاکستان براڈکاسٹنگ کارپوریشن (پی بی سی) کے ہیڈ کوارٹرز کو منتقل کرنے اور اس کی موجودہ اراضی کو طویل عرصے کے لیے لیز پر دینے کی تیاری کر رہی ہے۔

وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کی جانب سے پی بی سی کے ڈائریکٹر جنرل کو لکھے گئے خط میں لکھا گیا ہے کہ وزیر اطلاعات کی جانب سے متعلقہ افراد کو ریڈیو پاکستان کی زمین لیز پر دینے اور پی بی سی ہیڈکوارٹرز کو اسلام آباد کے سیکٹر ایچ نائن میں اس کی ٹریننگ اکیڈمی منتقل کرنے کے حوالے سے تجاویز تیار کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

وزارت اطلاعات کے اس فیصلے سے ملازمین ناراض نظر آتے ہیں اور پی بی سی لیبر یونین (سی بی اے) کے سیکریٹری جنرل اعجاز احمد نے معاملہ اعلیٰ سطح پر اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ’ تنخواہ دار طبقے کا ٹیکس بڑھانے کا فیصلہ نہیں ہوا ‘

ڈان سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ’ابتدائی طور پر ہم نے ڈائریکٹر ایڈمنسٹریشن محمود الحسن اختر سے بات کی اور انہیں مطلع کردیا کہ لیبر یونین حکومتی فیصلے کو ہرگز منظور نہیں ہونے دے گی۔'

ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے ڈی جی پی بی سی اور پرنسپل انفارمیشن افسر شفقت جلیل سے بھی ملاقات کی، جنہوں نے وزیر اطلاعات کے دفتر کے ڈائریکٹر دانیال گیلانی کی موجودگی میں ملازمین کے ساتھ کھڑے رہنے کی یقین دہانی کرائی۔

سی بی اے کے نمائندوں نے پی بی سی کے ڈائریکٹر جنرل سے بھی ملاقات کی اور مستقبل کا لائحہ عمل طے کرنے کے لیے 24 ستمبر کو ملک بھر سے نمائندوں کو طلب کرنے کا بھی فیصلہ کیا۔

مزید پڑھیں: نئی حکومت کا سابقہ حکومت کی ٹیکس استثنیٰ پالیسی واپس لینے پر غور

ملازمین کی ٹریننگ اکیڈمی میں منتقلی کے حوالے سے اعجاز احمد نے کہا کہ پی بی سی کی عمارت میں تقریباً 15 سو ملازمین کام کررہے ہیں جنہیں اکیڈمی کے چند کمروں میں منتقل نہیں کیا جا سکتا، پی بی سی کی اکیڈمی ٹریننگ میں 200 ملازمین کو بھی نہیں رکھا جا سکتا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ اکیڈمی میں اسٹوڈیو بنانے کے لیے اربوں روپے درکار ہوں گے اور ایک نہیں متعدد اسٹوڈیوز تعمیر کرنے پڑیں گے۔

واضح رہے کہ فواد چوہدری نے سوشل میڈیا پر کہا تھا کہ ریڈیو پاکستان کی عمارت لیز پر دی جائے گی تاکہ میڈیا یونیورسٹی تعمیر کی جا سکے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب تک ہمارے پاس عالمی معیار کی یونیورسٹیاں نہیں ہوں گی تب تک ہم محتاج رہیں گے۔

انہوں نے مزید کہا تھا کہ ملک میں متعدد ایسی ’غیر استعمال شدہ اراضی‘ ہیں جن کو استعمال میں لا کر فنڈز اکٹھا کیے جاسکتے ہیں۔

دوسری جانب پی بی سی کے ڈائریکٹر جنرل شفقت جلیل نے بتایا کہ مذکورہ معاملہ وزارت اطلاعات کے ساتھ زیر بحث آیا ہے، تاہم حکومت کی جانب سے پیش کردہ یہ صرف تجویز ہے جس پر یونین کو پریشان نہیں ہونا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: نیب قوانین میں ترامیم کی جائیں گی، وفاقی کابینہ کا فیصلہ

ریڈیو پاکستان کے سابق ڈی جی مرتضیٰ سولنگی نے ٹوئٹ کیا کہ ’نیشنل براڈکاسٹنگ ہاؤس سے ملازمین کو بے دخل کرکے لیز پر دیا جا رہا ہے جس کی بنیاد صدر ذوالفقار علی بھٹو نے 27 اپریل 1972 کو رکھی تھی‘۔

لیبر یونین کے سیکریٹری جنرل اعجاز احمد نے بتایا کہ پی بی سی ہیڈ کوارٹرز میں تین منزلہ بیس منٹ ہے جس میں آئے روز پانی بھر جاتا ہے اور مجبوراً دو منزل کو مستقل بند کرکے پمپ کے ذریعے پانی نکالا جاتا ہے‘۔

انہوں نے بتایا کہ 2 دہائی قبل جرمن ٹیم نے بلڈنگ کا دورہ کیا اور بتایا کہ عمارت کا مغربی حصہ ہر سال 1 انچ زمین میں دھنس جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ وزیر اطلاعات کے ساتھ ان کی وطن واپسی پر اٹھایا جائے گا۔


یہ خبر 20 ستمبر 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں