اسلام آباد ہائی کورٹ نے قومی احتساب بیورو (نیب) کے سابق چیئرمین قمر زمان چوہدری اور دیگر سینئر اعلیٰ سرکاری افسران کو پلاٹوں کی الاٹمنٹ کے معاملے میں طلب کر لیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق قمر زمان چوہدری، جو کیپٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کے سابق چیئرمین بھی رہ چکے ہیں، ان بیوروکریٹس میں شامل ہیں جو ڈیپوٹیشن پر اتھارٹی میں تعیناتی کو بنیاد بنا کر پلاٹ حاصل کرنے کے خواہشمند ہیں۔

ان کے علاوہ دیگر افراد میں انتظامیہ کے سابق ارکان غلام دستگیر اور محمد عطا، سابق ڈائریکٹر لینڈ اینڈ ری ہیبلٹیشن لئیق شاہ، محمد جلال سکندر سلطان، ظفر حسین محمد علی، سابق ڈائریکٹر پلاننگ اینڈ ایویلویشن امتیاز احمد وہرہ اور خالد خان جبکہ سابق ڈپٹی کمشنر ملک ظفر اقبال بھی شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: بااثر بیوروکریٹس بہترین اپارٹمنٹس کے مالک بن گئے

سی ڈی اے کے سابق عہدیداروں کی جانب سے دائر اپیل میں کہا گیا ہے کہ ہمیں پلاٹ ملنے چاہیے تھے لیکن اتھارٹی نے ہمیں دینے سے انکار کردیا جبکہ ان ہی پوسٹوں پر تعینات دیگر افسران کو نوازا گیا۔

درخواست میں کہا گیا کہ سی ڈی اے نے پلاٹ حاصل کرنے کے لیے ملازمت کی تاریخ 28 نومبر 2005 مقرر کی، جس سے اس تاریخ سے قبل سی ڈی اے میں کام کرنے والے افسران پلاٹ ملنے سے محروم رہ گئے جبکہ یہ کسی قانون میں نہیں۔

دوسری جانب نومبر 2005 کے بعد اتھارٹی کا حصہ بننے والے ان افسران کو بھی پلاٹوں سے نواز دیا گیا جنہوں نے محض 6 ماہ کی مدت تک ملازمت کی۔

مزید پڑھیں: سی ڈی اے کو 58 سال بعد تعمیری قوانین بنانے کا خیال آگیا

خیال رہے کہ 5 اگست 1986 کو کابینہ نے ایک اسکیم منظور کی تھی جس کے تحت اسلام آباد میں سیلف فنانس پر سرکاری افسران کے لیے 5 ہزار گھروں کی منظوری دی گئی تھی۔

بعد ازاں 2012 میں سی ڈی اے اور ایمپلائز ہاؤسنگ سوسائٹی کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں یہ طے پایا تھا کہ سی ڈی اے، وزیر اعظم کی اجازت سے اس اسکیم کے لیے زمین مہیا کرے گی۔

چنانچہ درخواست میں یہ موقف اختیار کیا گیا کہ سی ڈی اے ملازمین کے لیے بنائی جانے والی اس پالیسی کے تحت 28 نومبر 2005 کو سی ڈی اے بورڈ کے اجلاس میں ڈیپوٹیشن پر آنے والے افسران کو بھی پلاٹ کے حصول کے لیے اہل قرار دے دیا گیا تھا، جس کے بعد ان افسران نے پلاٹ حاصل کیے۔

یہ بھی پڑھیں: جعلی ہاؤسنگ اسکیم: نیب نے 175 متاثرہ افراد میں رقم تقسیم کردی

اس بارے میں سی ڈی اے کے وکیل کاشف علی ملک نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ کے سامنے موقف اختیار کیا کہ قاعدے کے مطابق صرف وہ افسران پلاٹ حاصل کرنے کے اہل ہیں جنہوں نے نومبر 2005 کے بعد سی ڈی اے میں ملازمت کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ سی ڈی اے بورڈ نے یہ معیار 2005 کے لینڈ ڈسپوزل ریگولیشن اور سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق مقرر کیا تھا۔

بعد ازاں بینچ نے درخواست گزاروں کو عدالت میں پیش ہونے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ اگر وہ پیش نہ ہوئے تو اپیل خارج کردی جائے گی، جس کے بعد سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی گئی۔

تبصرے (0) بند ہیں