نئی: بھارت میں ایک ساتھ تین طلاقیں دینے پر جیل کی سزا کا حکم صادر ہوگیا۔

مذکورہ فیصلہ وزیراعظم نریندر مودی کی جنوبی ایشیا کے اقلیتی کمیونٹی کی مسلم خواتین کی حمایت حاصل کرنے کے تناظر میں مثبت سمجھا جارہا ہے۔

واضح رہے کہ بھارتی سپریم کورٹ نے گزشتہ سال اگست میں مسلم مرد کی جانب سے اپنی اہلیہ کو ایک ساتھ تین مرتبہ ’طلاق‘ دینے کے عمل کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت: طلاق کے معاملے پر نئی قانون سازی کا آغاز`

بھارت میں اگلے برس عام انتخابات ہیں جس میں کامیابی کے لیے نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو ہندوؤں کے علاوہ دیگر برادریوں کی حمایت کی بھی ضرورت ہوگی۔

وزیر قانون روی شنکر پرساد نے کہا کہ بھارتی کابینہ نے ایک ساتھ تین طلاق دینے کا عمل قابل سزا بنانے کی منظوری دے دی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے اس حوالے سے پارلیمنٹ میں بل پاس کرانے کی بھی بھرپور جدوجہد کی۔

مزید پڑھیں: بھارت: ایک ہی وقت میں تین طلاق کا عمل غیر آئینی قرار

انہوں نے بتایا کہ ’تین طلاق کے معاملے میں کمی ریکارڈ نہیں کی گئی، حکومت نے طلاق کے 201 کیس ریکارڈ کیے جس کے بعد سپریم کورٹ نے مذکورہ عمل کالعدم قرار دیا‘۔

علاوہ ازیں وزیر قانون نے کہا کہ ’بھارت جیسے سیکولر ملک میں ہر جنس کے فرد کو مکمل تحفظ حاصل ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’آرڈیننس میاں بیوی کو باہمی رضامندی کا موقع فراہم کرتا ہے، اگر بیوی چاہیے تو،' لیکن کتنی جیل ہوگی یہ ابھی واضح نہیں ہے۔

واضح رہے کہ بھارتی پارلیمنٹ میں ایک ساتھ تین طلاق دینے کو ناقابل ضمانت جرم قرار دینے اور 3 سال تک کی سزا کا قانون منظور نہیں ہوسکا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ہندوستان : ’بیک وقت تین طلاقیں خواتین کے حقوق کے خلاف‘

روی شنکر پرساد نے کہا کہ ایسے بھی واقعات پیش آئے جس میں اچھا کھانا نہ پکانے پر شوہر نے بیوی کو واٹس ایپ پر طلاق دے دی۔

آبادی سے متعلق حالیہ اعداد و شمار کے مطابق بھارت کی ایک ارب 30 کروڑ نفوس میں مسلمانوں کی تعداد 14 فیصد ہے جبکہ 80 فیصد ہندو آباد ہیں۔

اس ضمن میں نقاد کا کہنا ہے کہ بی جے پی ہندو قومیت کے ایجنڈے پر گامزن ہے اور اقلیتی گروپ کو ’محدود‘ کر رہی ہے۔

مودی حکومت کے وزیر خوارک رام ویلاس پسوان نے بتایا کہ بی جے پی اس تاثر کو زائل کرنے کی کوشش کررہی ہے کہ وہ اقلیتی مسلم اور نجی ذات کے لوگوں کے خلاف ہے اور یہ طبقہ اگلے انتخابات میں ووٹ کاسٹ کرے گا‘۔

مزید پڑھیں: بھارت: اپوزیشن کی مخالفت کے باوجود طلاق بل لوک سبھا سے منظور

سیاسی تجزیہ نگار سندیپ شاستی کے مطابق تین طلاق سے متعلق آرڈیننس خصوصی طور پر مسلم برادری کی خواتین کے ووٹ حاصل کرنے کا طریقہ ہے۔

اس ضمن میں وزیر قانون نے واضح کیا کہ حکومت کے ایگزیکٹو آرڈر سے متاثرہ مسلم خواتین فوری طور پولیس میں شکایت درج کرا سکیں گی جو ’شوہر‘ کو گرفتار کرسکے گی۔

روی شنکر پرساد نے مذکورہ آرڈیننس کو جنسی انصاف اور مساوات قرار دیا۔


یہ خبر 20 ستمبر 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں