برطانیہ کے وزیر خارجہ جیریمی ہنٹ نے میانمار کی ریاست رخائن کا دورہ کرنے کر بعد روہنگیا بحران پر انصاف کا مطالبہ کرتے ہوئے میانمار کی وزیر اعظم آنگ سان سوچی سے کہا ہے کہ ’عالمی برادری روہنگیا بحران پر خاموش نہیں ہوگی‘۔

جیریمی ہنٹ نے یہ مطالبہ رخائن، جہاں فوجی آپریشن کی وجہ سے 7 لاکھ سے زائد روہنگیا مسلمان نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوگئے تھے، کے 2 روزہ دورہ کرنے کے بعد کیا۔

میانمار کا سابقہ نام لیتے ہوئے جیریمی ہنٹ کا کہنا تھا کہ ’برما کو معلوم ہونا چاہیے کہ بین الاقوامی کمیونٹی اس معاملے پر خاموش نہیں رہے گی‘۔

واضح رہے کہ میانمار کی فوج نے گزشتہ سال ریاست رخائن میں مسلمانوں کی ہلاکت، تشدد اور ریپ میں فوجی اور بدھ مذہب کے پیروکاروں کے ملوث ہونے کا اعتراف کیا تھا اور فوجی ظلم و ستم کے مارے رخائن کے 7 لاکھ سے زائد روہنگیا مسلمانوں نے بنگلہ دیش میں پناہ حاصل کی تھی۔

مزید پڑھیں: میانمار میں مسلمانوں کی نسل کشی، فوجی افسران کے ٹرائل کی تجویز

میانمار نے فوجی کریک ڈاؤن کے معاملے پر اقوام متحدہ کا عالمی انصاف عدالت سے تحقیقات کرنے کا مطالبہ مسترد کرتے ہوئے ’آزاد‘ کمیشن بنایا گیا تھا۔

جیریمی ہنٹ نے اپنے دورے میں آنگ سان سوچی سے ملاقات کے بعد کہا کہ ’اگر ہم نے اس معاملے پر کام ہوتے ہوئے نہیں دیکھا تو انصاف کے لیے ہمارے پاس موجود تمام راستوں کو اپنایا جائے گا، دنیا دیکھ رہی ہے‘۔

واضح رہے کہ برطانوی وزیر خارجہ کا دورہ ایسے وقت میں سامنے آیا جب اقوام متحدہ کی تحقیقاتی ٹیم نے بھی رخائن کا دورہ کیا تھا۔

روہنگیا مسلمانوں کے قتلِ عام کی تحقیقات کرنے والے اقوام متحدہ کے فیکٹ فائنڈنگ مشن نے میانمار کے فوجی افسران کو جنگی جرائم کا مرتکب قرار دے کر ان کا ٹرائل کرنے کی تجویز پیش کی تھی، جبکہ مسلمانوں کا قتل عام رکوانے میں ناکامی پر اقوامِ متحدہ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔

یہ بھی پڑھیں: آنگ سانگ سوچی کے خلاف ’پوسٹ‘ پر سابق کالم نگار کو سزا

فیکٹ فائنڈنگ مشن کی رپورٹ میں کہا گیا کہ ’ بہت دکھ اور افسوس کے ساتھ ہم نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کی حالت ہماری سوچ سے بھی زیادہ بد تر ہے‘۔

واضح رہے کہ 7 ستمبر کو اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے پناہ گزین (یو این ایچ سی آر) اور اقوام متحدہ کے ڈویلپمنٹ پروگرام (یو این ڈی پی) کو شمالی رخائن میں مقامی سطح پر حالات کو جانچنے کے لیے پہلی مرتبہ اجازت دی گئی تھی۔

لاک ڈاؤن:

قانونی طور پر بغیر ریاستی شناخت کے روہنگیا افراد کو میانمار کے بدھ مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کی جانب سے غیر قانونی مہاجرین سمجھا جاتا ہے۔

گزشتہ سال اگست کے مہینے میں میانمار کی فوج نے لاکھوں روہنگیا افراد کو ملک سے دھکیلتے ہوئے سرحد پار کرنے پر مجبور کیا تھا۔

پناہ گزینوں کو رخائن کے شدت پسند گروہوں اور فوج کی جانب سے ریپ، قتل، جلاؤ گھیراؤ اور تشدد کا سامنا تھا۔

رخائن کے شمالی علاقے کو اس وقت سے بند کردیا گیا تھا جبکہ صحافیوں اور مبصرین کو نگرانی میں مختصر دورے کرنے دیے جاتے تھے۔

اقوام متحدہ کی 2 تنظیموں کو اجازت دینے کا معاملہ ایسے وقت میں سامنے آیا تھا جب عالمی برادری کی جانب سے روہنگیا افراد کے ساتھ ہونے والے مظالم کے احتساب کی بات کی جانے لگی۔

مزید پڑھیں: اقوام متحدہ کی ٹیم کو میانمار میں رخائن تک رسائی مل گئی

اقوام متحدہ کے میانمار میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر فیکٹ فائنڈنگ مشن نے 2 ہفتے قبل رپورٹ شائع کرتے ہوئے کہا تھا کہ میانمار کے آرمی چیف اور 5 دیگر سینیئر عہدیداران کے خلاف گزشتہ سال روہنگیا اقلیت کریک ڈاؤن کی تحقیقات کی جانی چاہیے۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ کے بعد دی ہیگ کے عالمی کرمنل کورٹ نے بھی اسے سرحدی جرائم قرار دیتے ہوئے عندیہ دیا تھا کہ انہیں روہنگیا افراد کو ملک بدر کرنے کے خلاف تحقیقات کا اختیار حاصل ہے۔

بعدازاں میانمار کی حکومت نے عالمی عدالت کے بیان کو مسترد کردیا تھا۔

آئندہ ماہ اکتوبر میں اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران میانمار کا معاملہ زیر بحث آئے گا جس میں میانمار کی سویلین لیڈر آنگ سان سوچی کے حوالے سے کہا بتایا گیا کہ وہ اس اجلاس میں شرکت نہیں کریں گی۔

کسی زمانے میں جمہوریت پسند اور انسانی حقوق کی علامت تصور کی جانے والی آنگ سان سوچی کو مسلمان اقلیت کے خلاف کھڑے نہ ہونے پر شدید تنقید کا سامنا ہے۔

میانمار کی جانب سے رخائن میں ہونے والے ظلم کے تمام الزامات کو مسترد کیا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ ان کا یہ اقدام روہنگیا میں شدت پسند افراد کو نکالنے کے لیے تھا۔


یہ خبر ڈان اخبار میں 21 ستمبر کو شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں