سعودی عرب کی ایک مقامی عدالت نے اپنے والد کی سرپرستی کے خلاف مقدمہ دائر کرنے والی خاتون کے حق میں فیصلہ دے دیا۔

خیال رہے کہ سعودی عرب میں اگرچہ خواتین کو رواں برس ڈرائیونگ سمیت دیگر کاموں کی اجازت دی گئی ہے۔

تاہم تاحال وہ اپنے محرم مرد حضرات کی سرپرستی میں شمار ہوتی ہیں۔

اپنے والد، بھائی، شوہر اور خاندان کے سرپرست مرد کی اجازت کے بغیر انہیں نہ تو بیرون ملک سفر کی اجازت دی جاتی ہے اور نہ ہی انہیں شادی کا حق حاصل ہے۔

اسی طرح کئی معاملات میں خواتین کو اپنے سرپرست مرد حضرات کا اجازت نامہ پیش کرنا پڑتا ہے۔

تاہم رواں برس حکومت نے خواتین کو سرپرست مرد کی اجازت کے بغیر ہی کاروبار یا نوکری کرنے کی اجازت دی تھی۔

نشریاتی ادارے ‘اے ایف پی’ کی رپورٹ کے مطابق ایک 24 سالہ خاتون نے اپنے والد کی سرپرستی کے خلاف جدہ کی ایک عدالت میں مقدمہ دائر کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ‘سعودی عرب میں 1979 سے قبل خواتین کو تمام سماجی حقوق حاصل تھے‘

خبر رساں ادارے نے اپنی رپورٹ میں سعودی حکومت نواز نشریاتی ادارے اوکاز سمیت دیگر اداروں کی خبروں کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ عدالت نے حیران کن طور پر خاتون کے حق میں فیصلہ دیا۔

رپورٹ کے مطابق عدالت نے خاتون کے والد کو حکم دیا کہ وہ انہیں پاسپورٹ فراہم کریں۔

عدالتی فیصلے اور خاتون کی جانب سے دائر کی گئی درخواست کے مطابق سعودی عرب کے نشریاتی اداروں نے لکھا کہ خاتون یونیورسٹی کی طالبہ تھیں اور وہ مزید تعلیم کے لیے بیرون ملک جانا چاہتی تھیں۔

مزید پڑھیں: وہ کام جن کی 2018 سے پہلے سعودی خواتین کو اجازت نہ تھی

سعودی میڈیا کے مطابق والد کی سرپرستی کے خلاف درخواست دائر کرنے والی خاتون گزشتہ 10 سال سے والدہ کے ساتھ رہ رہی ہیں اور انہوں نے 6 سال سے والد سے ملاقات تک نہیں کی۔

خبر رساں ادارے نے بتایا کہ خاتون کے حق میں عدالتی فیصلے آنے کے بعد عرب سوشل میڈیا پر اس حوالے سے بحث کی جا رہی ہے اور کئی خواتین نے عدالتی فیصلے کو خوش آئندہ قرار دیا۔

خواتین کا کہنا تھا کہ اگر خواتین کو مرد حضرات کی طرح ہی اپنا ذاتی پاسپورٹ جاری کیا جاتا ہے تو یہ کہا کا قانون ہے اسے جاری کرنے کی اجازت اس کے سرپرست مرد سے لی جائے؟۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں