اسلام آباد: وفاقی محتسب سیکریٹریٹ نے سپریم کورٹ کو پیش کردہ سفارشات میں استدعا کی ہے کہ وہ ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی)، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اور دیگر سرکاری جامعات کو مختلف جیلوں میں زیر حراست قیدیوں کی تعلیم اور اسکلز ٹریننگ کے لیے معاونت فراہم کرنے کا حکم دے۔

ڈان میں شائع رپورٹ کے مطابق وفاقی محتسب کے وکیل حافظ احسان احمد کھوکھر کی جانب سے سفارشات اس وقت پیش کی گئیں جب عدالت عظمیٰ نے جیلوں میں قیدیوں کی حالت زار سے متعلق ازخود نوٹس لیا۔

یہ بھی پڑھیں: وفاقی محتسب نے دس سال سے زیرِ التوا دس لاکھ مقدمات نمٹادیے

آخری سماعت میں احسان احمد کھوکھر نے عدالت کو آگاہ کیا تھا کہ مجموعی طور پر 98 جیلوں میں 78 ہزار 160 قیدی ہیں، جبکہ ان جیلوں میں 63 ہزار 532 قیدیوں کو رکھنے کی گنجائش ہے۔

اس حوالے سے انہوں نے مزید بتایا کہ ایک ہزار 955 خواتین، 25 ہزار 195 مرد، 48 ہزار 780 انڈر ٹرائل، ایک ہزار 225 بچے قیدی اور 4 ہزار 688 دیگر مجرم ہیں۔

وفاقی محتسب نے صوبوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ جیلوں میں قیدیوں کی زندگی بہتر بنانے کے لیے کمیٹیاں تشکیل دیں، جس میں خصوصی توجہ خواتین اور بچوں پر ہونی چاہیے۔

مزید پڑھیں: وفاقی محتسب سگریٹ کی روک تھام کیلئے متحرک

اس ضمن میں مزید کہا گیا کہ ضلعی انتظامیہ بھی عدالتی حکم پر اپنے متعلقہ ضلع میں کمیٹیوں کی نگرانی کرے اور کسی بھی غفلت کی صورت میں محکمہ داخلہ یا آئی جی جیل خانہ جات کو مطلع کریں۔

کمیٹی سے متعلق کہا گیا کہ اس میں سول سوسائٹی، بار ایسوسی ایشن، تعلیم اور صحت کے شعبوں سے تعلق رکھنے والے ایسے لوگ شامل ہوں گے جو پہلے سے ہی قیدیوں کی زندگی بہتر بنانے میں کوشاں رہے ہوں۔

وزارت داخلہ اور صوبائی محکمہ داخلہ یا جیل اپنے اداروں میں سینئر افسر کو بطور فوکل پرسن نامزد کریں تاکہ وہ مختلف امور میں کمیٹی کے اراکن کی مدد کر سکے۔

یہ بھی پڑھیں: وفاقی بیوروکریسی میں اعلیٰ سطح پر تقرر اور تبادلے

سفارشات میں زور دیا گیا کہ جیل اور کورٹ کے درمیان بائیو میٹرک سسٹم تشکیل دیا جائے جو قیدیوں کے ریکارڈ قائم کر سکے۔

قیدیوں کی پیشی کے روسٹر اور جیل ریکارڈ کو کمپیوٹرائزڈ کیا جائے جس میں نادرا سمیت دیگر متعلقہ ادارے شامل ہوں گے۔

اسی طرح منشیات استعمال کرنے والے اور ذہنی مریض قیدیوں کو جیل سے باہر رکھا جائے اور ان کی صحتیابی کے لیے باقاعدہ طبی سہولیات فراہم کی جائے۔

محتسب نے کہا کہ پاکستان بار کونسل اور صوبائی بار کونسلز کو مشورہ دیا جائے کہ وہ قیدیوں کو مفت قانونی معاونت فراہم کریں۔

تبصرے (0) بند ہیں